وہ دلائل جن سے احناف ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دیتے ھیں
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام

وہ دلائل جن سے بریلوی اور دیوبندی حضرات ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دیتے ھیں ان کے دلائل کا نمبر وار تحقیقی جائزہ

سب سے پہلے شدمد سے دلیل پیش کی جاتی ھے ایک مجلس کے اندر اگر کوئی بندہ اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ھے وہ تین طلاق واقع ھو جاتی ھیں

➊ جیسا کہ ملاحظہ کیجئے


نَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ ،
نَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ ،
نَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ الْقُرَشِيُّ ،
نَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ ،
عَنْ عَبْدِ الْغَفُورِ ،
عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ،
عَنْ زَاذَانَ ،
عَنْ عَلِيٍّ ،
قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
” رَجُلا طَلَّقَ الْبَتَّةَ فَغَضِبَ،
وَقَالَ: تَتَّخِذُونَ آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا،
أَوْ دِينَ اللَّهِ هُزُوًا وَلَعِبًا،
مَنْ طَلَّقَ الْبَتَّةَ أَلْزَمْنَاهُ ثَلاثًا،
لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ”

، إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ،
هَذَا كُوفِيٌّ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ.

ترجمہ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ
نے ایک شخص کو (یا ایک شخص کے بارے میں) سنا اس نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دیدی، تو آپ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ
غصہ میں آگئے آپ نے فرمایا تم لوگ اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہو۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) اللہ کے دین (کے احکام) سے کھیل کود کرتے ہو جو شخص طلاق بتہ دے گا ہم اس کی تین طلاقوں کو لازم قرار دیں گے اور وہ عورت اس شخص کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک دوسری شادی (کرنے کے بعد بیوہ یا مطلقہ) نہ ہو جائے۔ اسماعیل بن ابوامیہ نامی راوی کو فی ہیں اور ضعیف الحدیث ہیں

سنن دارقطنی کتاب الطلاق حدیث(3945)
اغاثۃ اللھفان حدیث(380)
حالانکہ یہ پیش کردہ روایت کو امام الدارقطنی نے نقل کرنے کے بعد فرمایا


قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ الْكُوفِيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَطَرٍ عَنْ عَبْدِ الْغَفُورِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْوَاسِطِيِّ وَكُلُّهُمْ ضُعَفَاءُ
,
نَصبُ الرَّايَةِ لِأَحَادِيثِ الهِدَايَةِ: (3 / 336)

یہ روایت ھی ضعیف ھے اس کے اندر راوی ضعیف ھیں

اس روایت کے ایک راوی اسماعیل بن ابی امیہ ضعیف اور متروک الحدیث راوی ھیں،
إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ کے متعلق محدثینِ کرام کی مختلف آراء موجود ہیں، مگر مجموعی طور پر اُن کو ضعیف اور بعض نے متروک قرار دیا ہے۔ ذیل میں چند اقوال پیش کرتے ھیں:

يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ:
> قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: لَيْسَ بِشَيْءٍ.
(یعنی وہ کچھ بھی نہیں – یہ انتہائی ضعف کی نشانی ہے)
الجرح والتعديل (2/162)

ابنُ عدِي:
> قَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: لَهُ أَحَادِيثُ لَا يُتَابَعُ عَلَيْهَا.
(اس کی ایسی روایات ہیں جن کی متابعت نہیں کی جاتی)
الكامل في ضعفاء الرجال (1/391)

ابنُ حِبَّان:
> قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ يَغْلَطُ وَيُخَالِفُ، لَا يَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِهِ.
(وہ غلطیاں کرتا تھا اور مخالف روایت کرتا، اس کی روایت سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی)
المجروحِين (1/105)

الذَّهَبِي:
> وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: مَتْرُوكٌ.
(یعنی چھوڑ دیا گیا راوی)
ميزان الاعتدال (1/239)

خلاصہ:
إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ کو کئی محدثین نے ضعیف، حتیٰ کہ متروک بھی قرار دیا ہے۔ لہٰذا، اس کی منفرد روایات کو قبول نہیں کیا جاتا، خصوصاً جب وہ ثقہ راویوں کی مخالفت کرے یا ان کا شاذ ہو۔

➋ اس میں دوسری وجہ ضعف عُثْمَانُ بْنُ عَطَاءٍ القُطْرِيّ

ضعیف اور کذاب ھیں اور یہ راوی قابلِ اعتماد نہیں سمجھا جاتا۔

يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ:
> قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: عُثْمَانُ بْنُ عَطَاءٍ لَا تُكْتَبُ حَدِيثُهُ.
(اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی – یعنی اس کی روایت ناقابلِ اعتبار ہے)
الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (6/203)

ابنُ حِبَّان:
> قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ، يَنْبَغِي أَنْ يُجْتَنَبَ.
(وہ حدیثیں گھڑتا تھا؛ اس سے اجتناب کرنا واجب ہے)
المجروحِين لابن حبان (2/51)

امام بخاری:
> قَالَ الْبُخَارِيُّ: مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
(یعنی اس کی روایت منکر ہے – یعنی شاذ اور مردود روایات بیان کرتا ہے)
التاريخ الكبير للبخاري (6/218)

الذَّهَبِي:
> وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: تَرَكَهُ أَحْمَدُ وَيَحْيَى، وَقَالَ ابْنُ حِبَّانَ: يَضَعُ الْحَدِيثَ.
(احمد بن حنبل اور یحییٰ نے اسے ترک کیا، اور ابن حبان نے کہا کہ وہ حدیثیں گھڑتا ہے)
ميزان الاعتدال (3/44)

خلاصہ:
عُثْمَانُ بْنُ عَطَاءٍ الْقَطَّانُ یا القُطْرِيّ پر شدید جرح ہے:
◈ امام بخاری نے منکر الحدیث کہا،
◈ ابن حبان نے اسے وضاع (حدیث گھڑنے والا) قرار دیا،
◈ یحییٰ بن معین نے کہا کہ اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔
لہٰذا اس راوی کو کذاب یا وضاع کے درجے کا شمار کیا جاتا ہے، اور اس کی احادیث ناقابلِ قبول ہیں۔

➌ تیسرے راوی عبدالغفور

یہ بھی ضعیف ھی ھیں، عبدالغفور کے بارے میں محدثینِ کرام کی سخت آراء منقول ہیں۔ اگرچہ "عبدالغفور” کے نام کے ساتھ کئی راوی ملتے ہیں، لیکن جس کا ذکر علامہ ابن تیمیہ، امام عدی، امام بخاری اور علامہ محمد طاہر نے کیا ہے، اس سے مراد اکثر عَبْدُ الْغَفُورِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، یا عَبْدُ الْغَفُورِ بْنُ سَعِيدٍ، یا عَبْدُ الْغَفُورِ بْنُ سُلَيْمَانَ ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر کو ضعیف، مجہول یا کذاب کہا گیا ہے۔

آیئے ان پر محدثین کی آراء دیکھتے ہیں:
امام ابن عدی (المتوفى 365هـ):
> قَالَ: عِنْدَهُ مُنَاكِيرُ، وَهُوَ فِي جُمْلَةِ الضُّعَفَاءِ.
(اس کے پاس منکر احادیث ہیں، اور یہ ضعیف راویوں میں سے ہے)
الكامل في ضعفاء الرجال (5/432)

امام بخاری:
> قَالَ الْبُخَارِيُّ: فِيهِ نَظَرٌ.
(اس پر کلام ہے، یعنی قابلِ اعتبار نہیں)
التاريخ الكبير (6/487)

علامہ ابن تیمیہ (المتوفى 728هـ):
> قَالَ: هَذِهِ الرِّوَايَةُ فِيهَا ضُعْفٌ، لِأَنَّ فِي سَنَدِهَا مَجَاهِيلَ وَضُعَفَاءَ.
(یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں مجہول اور ضعیف راوی موجود ہیں)
منهاج السنة النبوية (4/77)

علامہ محمد طاہر الفتنی (المتوفى 986هـ):
> قَالَ فِي "تَذْكِرَةِ الْمَوْضُوعَاتِ”: عَبْدُ الْغَفُورِ كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ.
(عبدالغفور حدیثیں گھڑتا تھا)

خلاصہ:
اس "عبدالغفور” کے بارے میں:
◈ ابن عدی نے اسے ضعیف قرار دیا،
◈ امام بخاری نے اس پر کلام کیا،
◈ علامہ محمد طاہر نے کہا وہ موضوع حدیثیں بناتا ہے،
◈ اور ابن تیمیہ نے اس روایت کی سند کو ضعیف اور مجہول راویوں پر مشتمل قرار دیا۔
لہٰذا محدثین کے نزدیک یہ راوی قابلِ احتجاج نہیں ہے اور اس کی روایت ضعیف یا موضوع کے درجے میں آتی ہے۔

خلاصہ مخالفین کی پیش کردہ روایت

محدثین کرام کے نزدیک موضوع من گھڑت ھے
لہذا ایسی روایت پیش کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں ھے علمی دنیا میں ایسی روایات کی کوئی حیثیت نہیں ھے

دوسری روایت جو مخالفین پیش کرتے ھیں

اس کا تحقیقی جائزہ ملاحظہ کیجئے


قَالَ الإِمَامُ الدَّارَقُطْنِيُّ رَحِمَهُ اللهُ (المُتَوَفَّى ٣٨٥ هـ):
نَا أَبُو مُحَمَّدٍ بْنُ صَاعِدٍ،
نَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الأَذْنِيُّ. ح.
وَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الدَّقَّاقُ،
نَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْبَاقِي الأَذْنِيُّ،
نَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْقَاسِمِ الصَّنْعَانِيُّ،
نَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ فَلَاحٍ الصَّنْعَانِيُّ،
نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ،
عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيِّ،
وَصَدَقَةُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ،
عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ،
عَنْ أَبِيهِ،
عَنْ جَدِّهِ،
قَالَ:


طَلَّقَ بَعْضُ آبَائِي امْرَأَتَهُ أَلْفًا،
فَانْطَلَقَ بَنُوهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ،
إِنَّ أَبَانَا طَلَّقَ أُمَّنَا أَلْفًا،
فَهَلْ لَهُ مِنْ مَخْرَجٍ؟
فَقَالَ:
إِنَّ أَبَاكُمْ لَمْ يَتَّقِ اللهَ فَيَجْعَلَ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ مَخْرَجًا،
بَانَتْ مِنْهُ بِثَلَاثٍ عَلَى غَيْرِ السُّنَّةِ،
وَتِسْعُ مِائَةٍ وَسَبْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِثْمًا فِي عُنُقِهِ.

ترجمہ
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے خاندان میں بعض نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ، پھر اس کے لڑکے اللہ کے رسول
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
! ہمارے والد نے ہماری والدہ کو ہزار طلاق دے دی ہے ، تو کیا کوئی راستہ ہے ؟ تو اللہ کے رسول
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
نے فرمایا: تمہارے والد اللہ سے نہیں ڈرے کہ ان کے لئے کوئی راستہ نکلتا ، تمہاری ماں تین غیرسنی طلاق سے جدا ہوچکی ہے اور باقی نو سو ستانوے طلاقوں کا گناہ تمہارے والد کی گردن پر ہے


[سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 36، المؤتلف والمختلف للدارقطني 4/ 1863، الخطيب في تاريخ بغداد 14/ 227،
ابن عساكر في تاريخه 64/ 303، اسحاق بن راهويه في مسنده رقم 781،
ابن عدي في الكامل 7/ 233، عبدالرازاق في مصنفه 6/ 393]

عرض ہے کہ :
امام دارقطنی نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد خود ہی فرمادیا:
رُوَاتُهُ مَجْهُولُونَ وَضُعَفَاءُ إِلَّا شَيْخَنَا وَابْنَ عَبْدِ الْبَاقِي [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 36]
اور سند کا مرکزی راوی عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ سخت ضعیف ومتروک راوی ہے۔
اس کے ضعیف ہونے پر تمام ائمہ فن کا اتفاق ہے۔

تیسری روایت کا تحقیقی جائزہ ملاحظہ کیجئے


قَالَ الإِمَامُ الدَّارَقُطْنِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ (المتوفّى: ٣٨٥هـ):
نَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ القَطَّانُ،
نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ،
نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الهَيْثَمِ صَاحِبُ الطَّعَامِ،
نَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ،
نَا سَلَمَةُ بْنُ الفَضْلِ،
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ،
عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى،
عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ،
قَالَ:


كَانَتْ عَائِشَةُ الخَثْعَمِيَّةُ عِنْدَ الحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
فَلَمَّا أُصِيبَ عَلِيٌّ وَبُويِعَ الحَسَنُ بِالخِلَافَةِ،
قَالَتْ: لَتَهْنَكَ الخِلَافَةُ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ،
فَقَالَ: يُقْتَلُ عَلِيٌّ وَتُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ؟!
اذْهَبِي فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا.
قَالَ: فَتَلَفَّعَتْ نِسَاجَهَا وَقَعَدَتْ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا،
وَبَعَثَ إِلَيْهَا بِعَشَرَةِ آلَافٍ مُتْعَةً،
وَبَقِيَّةٍ بَقِيَ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا،
فَقَالَتْ: مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مُفَارِقٍ.
فَلَمَّا بَلَغَهُ قَوْلُهَا بَكَى،
وَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ جَدِّي،
أَوْ حَدَّثَنِي أَبِي،
أَنَّهُ سَمِعَ جَدِّي يَقُولُ:
"أَيُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا مُبْهَمَةً،
أَوْ ثَلَاثًا عِنْدَ الإِقْرَاءِ،
لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ”،
لَرَاجَعْتُهَا.

ترجمہ
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ عائشہ خثعمیہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں ، تو جب علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوئی تو ان کی اس بیوی نے کہا: امیر المؤمنین آپ کو خلافت مبارک ہو، تو حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر تو خوشی کا اظہار کرتی ہے ، یہاں سے نکل جا تجھے تین طلاق ہے، راوی کہتے ہیں کہ پھر ان کی بیوی نے کپڑوں سے خود کو ڈھانک لیا اور گھر میں بیٹھ گئی اور جب عدت ختم ہوگئی تو حسن رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس دس ہزار زائد اور بقایا مہر بھجوایا، تو اس نے کہا: بچھڑے محبوب کے مقابلہ میں یہ مال ومتاع کچھ نہیں ہے ، حسن رضی اللہ عنہ تک جب یہ بات پہنچی تو وہ روپڑے اور کہا: اگر میں نے اپنے نانا سے یہ نہ سنا ہوتا اور مجھ سے میرے والد نے یہ نہ بتایا ہوتا کہ انہوں نے میرے نانا سے سنا ہے کہ جو شخص بھی اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دے دے یا الگ الگ تین طہر میں تین طلاق دے ڈالے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے تو میں اس سے رجوع کرلیتا۔


[سنن الدارقطنی، ت الارنؤوط:۵؍۵۵، الطبرانی فی معجمہ :۳؍۹۱،
البیہقی فی سننہ :۷؍۴۱۹، الدارقطنی فی سننہ رقم:۵؍۵۶]

یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے۔ سند میں
مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ موجود ہے جو کذاب تھا۔

امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶)نے کہا:
"فِيهِ نَظَرٌ” (اس میں نظر ہے)
[التاریخ الکبیر للبخاری:۱؍۶۹]

امام جوزجانی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۹)نے کہا:
"كَانَ رَدِيءَ الْمَذْهَبِ، غَيْرَ ثِقَةٍ” (یہ برے مذہب والا اور غیر ثقہ تھا)
[أحوال الرجال للجوزجانی:ص:۳۵۰]

أبو حاتم محمد بن إدریس الرازی، (المتوفی:۲۷۷)نے کہا:
"هَذَا كَذَّابٌ” (یہ کذاب یعنی بہت بڑا جھوٹا ہے)
[الضعفاء لابی زرعہ الرازی:۲؍۷۳۹]

امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:۳۵۴)نے کہا:
"كَانَ مِمَّنْ يَنْفَرِدُ عَنِ الثِّقَاتِ بِالأَشْيَاءِ الْمَقْلُوبَاتِ”
( یہ ثقات سے تنہا الٹ پلٹ چیزیں روایت کرتا ہے)
[المجروحین لابن حبان:۲؍۳۰۳]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے کہا:
"حَافِظٌ ضَعِيفٌ” (یہ حافظ اور ضعیف ہے)
[تقریب التہذیب لابن حجر: رقم:۵۸۳۴]

خان بادشاہ بن چاندی گل دیوبندی لکھتے ہیں:
کیونکہ یہ کذاب اوراکذب اورمنکرالحدیث ہے۔
[القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علی الالبانی المسکین:ص:۳۳۴]
نیز دیکھئے: رسول اکرم کاطریقہ نماز از مفتی جمیل صفحہ ۳۰۱۔

دارقطنی کی دوسر ی سند میں
عَمْرُو بْنُ شِمْرٍ ہے۔
یہ بھی کذاب اور جھوٹا راوی ہے۔

امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۰)نے کہا:
"كَانَ ضَعِيفًا جِدًّا مَتْرُوكَ الْحَدِيثِ” (یہ سخت ضعیف اور متروک الحدیث تھا)
[الطبقات الکبری ط دار صادر:۶؍۳۸۰]

امام جوزجانی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۹)نے کہا:
"كَذَّابٌ” (یہ بہت بڑا جھوٹا ہے)
[أحوال الرجال للجوزجانی، ت البَستوی:ص:۷۳]

امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۷۷)نے کہا:
"مُنْكَرُ الْحَدِيثِ جِدًّا ضَعِيفُ الْحَدِيثِ لَا يُشْتَغَلُ بِهِ تَرَكُوهُ”
( یہ سخت منکر الحدیث ہے، اس کی حدیث نہیں لی جائے گی، لوگوں نے اسے ترک کردیا ہے)
[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۶؍۲۳۹]

امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۰۳)نے کہا:
"مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ كُوفِيٌّ” ( یہ متروک الحدیث کوفی ہے)
[الضعفاء والمتروکون للنسائی:ص:۸۰]

امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:۳۵۴)نے کہا:

"كَانَ رَافِضِيًّا يَشْتِمُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَكَانَ مِمَّنْ يَرْوِي الْمَوْضُوعَاتِ عَنِ الثِّقَاتِ فِي فَضَائِلِ أَهْلِ الْبَيْتِ وَغَيْرِهَا”

(یہ رافضی تھا ، اللہ کے رسول
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے صحابہ کو گالیاں دیتا تھا، یہ اہل بیت کے فضائل وغیرہ میں ثقات سے جھوٹی احادیث روایت کرتا تھا)
[المجروحین لابن حبان، تزاید:۲؍۷۵]

امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۸۵)نے کہا:
"كُوفِيٌّ، مَتْرُوكٌ” ( یہ کوفی متروک الحدیث ہے)
[سؤالات البرقانی للدارقطنی، ت الأزہری:ص:۱۱۳]

امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۴۸)نے کہا:
"رَافِضِيٌّ مَتْرُوكٌ” ( یہ رافضی اور متروک ہے)
[دیوان الضعفاء :ص:۳۰۳]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے کہا:
"مَتْرُوكٌ” ( یہ متروک ہے)
[التمییز لابن حجر، ت دکتور الثانی:۲؍۵۶۰]

اس کے علاوہ اس سند میں
يَحْيَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْجَرِيرِيُّ
اور
حُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْجَرِيرِيُّ
غیر معروف ہیں ، نیز
أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ
پر بھی کافی کلام ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے

خلاصہ کلام

کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے متعلق تین طلاق ھو جانا ——-یہ تمام احادیث وروایات ضعیف ومردود ھیں
بلکہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ھی طلاق قرار دی جائے گی اور یہی نبی ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ھے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1