ولی کے بغیر عدالتی نکاح کا حکم اور تجدید نکاح کی ضرورت

سوال

جو عورت ولی کے بغیر عدالتی نکاح کر لیتی ہے اور بعد میں اسے توبہ کی توفیق ملتی ہے، تو اب اسے کیا کرنا چاہیے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

عدالتی نکاح کی حیثیت:

چونکہ ولی کے بغیر نکاح کا مسئلہ اجتہادی ہے، اس لیے بعض فقہاء کے مطابق عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا جائے گا اور نکاح درست تصور کیا جائے گا۔
شیخ صالح الفوزان اور شیخ ابن باز رحمہما اللہ کے فتوے کے مطابق، عدالت کا نکاح اگر منعقد ہو چکا ہو تو اسے کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا، البتہ ولی کو راضی کر کے تجدیدِ نکاح کر لینا زیادہ بہتر اور احوط ہے۔

اگر ولی بعد میں راضی ہو جائے:

اگر عورت کا ولی بعد میں راضی ہو جائے تو بہتر اور احوط یہی ہے کہ نکاح دوبارہ ایجاب و قبول کے ساتھ تجدید کر لیا جائے۔
اس سے نکاح میں کسی بھی قسم کی فقہی کمزوری دور ہو جائے گی اور نکاح مضبوط بنیادوں پر استوار ہوگا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1