وفات کے بعد میت کو جن اشیا کا فائدہ ہوتا ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

وفات کے بعد میت کو جن اشیا کا فائدہ ہوتا ہے
➊ مسلمان کی دعا:
جبکہ اس میں قبولیت کی شرائط موجود ہوں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَالَّذِيْنَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلُ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
[الحشر: 10]
”اور جو ان کے بعد آئیں گے وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی ) نہ ڈال ، اے ہمارے رب بے شک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔“
➋ ولی کا میت کے روزوں کی قضائی دینا:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من مات و عليه صيام صام عنه وليه
”جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے ۔“
[بخاري: 156/4 ، كتاب الصوم: باب من مات و عليه صوم ، مسلم: 155/3 ، أبو داود: 376/1 ، بيهقي: 279/6 ، أحمد: 69/6]
➌ میت کی نذر پوری کرنا:
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ :
ان امي ماتت وعليهـا نـذر؟ فقال اقضه عنها
”بے شک میری والدہ وفات پا گئی ہے اور اس کے ذمے نذر ہے (تو میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کی طرف سے نذر پوری کر دو۔“
[بخاري: 440/5 ، كتاب الوصايا: باب ما يستحب لمن توفى فجائة أن يتصد قوا عنه قضاء ، نسائي: 130/2 ، ترمذي: 375/2 ، بيهقي: 256/4 ، أحمد: 1893]
➍ میت کی طرف سے کوئی بھی شخص قرض ادا کر سکتا ہے:
جیسا کہ عہد رسالت میں ایک شخص مقروض فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلوا على صاحبكم ”اپنے ساتھی پر خود نماز پڑھو ۔“ تو حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: صل عليه يا رسول الله وعلى دينه فصلي عليه ”اے اللہ کے رسول ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیے اور اس کا قرض میرے ذمے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔“
[بخاري: 368/3 ، كتاب الحوالات: باب من تكفل عن ميت دينا فليس له أن يرجع ، أحمد: 47/4 ، نسائي: 278/1 ، دارمي: 263/2 ، ابن ماجة: 75/2]
➎ صالح اولاد جو بھی نیک اعمال سرانجام دے:
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى
[النجم: 39]
”انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی ۔“
اور اولا د انسان کی کوشش و کمائی میں سے ہے جیسا کہ حدیث نبوی ہے کہ :
إن أطيب ما أكل الرجل من كسبه وإن ولده من كسبه
”بے شک سب سے پاکیزہ چیز جسے انسان کھاتا ہے وہ اس کی (اپنے ہاتھوں کی ) کمائی ہے اور بے شک اس کی اولاد بھی اس کی کمائی میں سے ہی ہے ۔“
[حسن: أحكام الجنائز: ص/ 217 ، أبو داود: 108/2 ، كتاب البيوع: باب فى الرجل يا كل من مال ولده ، نسائي: 211/2 ، ترمذي: 287/2 ، دارمي: 247/2 ، ابن ماجة: 2/2 ، حاكم: 46/2 ، أحمد: 41/6]
➏ صدقہ جاریہ اور اچھے اثرات:
1. ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ
[يس: 12]
”ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں (یعنی ایسے عمل اور نمونے دنیا میں پیچھے چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد لوگ ان کی اقتداء میں وہ اعمال بجا لاتے رہتے ہیں)۔
2. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین اعمال کے سوا اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں:
① صدقہ جاریہ۔
② ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں۔
③ نیک و صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔
[مسلم: 73/5 ، كتاب الوصية: باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد الميت، الأدب المفرد للبخارى: ص/ 8 ، أبو داود: 15/2 ، نسائي: 129/2 ، بيهقي: 278/6 ، أحمد: 372/2]
قبر پر میت کا نام اور تاریخ وفات لکھنا
(البانیؒ) انہوں نے اسے بدعات میں شمار کیا ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/ 332]
یہ عمل ثابت نہیں اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: المدخل: 272/3 ، الإغاثة: 196/1 ، الإبداع: 95]
وفات کے تیسرے اور چالیسویں دن ختم وغیرہ کی مجالس
(ابن بازؒ) ایسے پروگرام منعقد کرنا بدعت ہے۔
[الفتاوى الإسلامية: 31/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1