اس ترکے سے وراثت لینے کا حکم جو سود سے ہو
سوال: جب ہمیں علم ہو کہ مرنے والا سودی لین دین کرتا تھا تو کیا اس کے ورثا کے لیے ترکے سے اپنا حصہ لینا جائز ہے؟
جواب: ہم کہتے ہیں: ہاں، جائز ہے اور اس کا گناہ میت کے سر ہوگا، لیکن اگر سود ابھی تک نہ لیا گیا ہو تو ہم ورثاء سے کہیں گے، جس پر سود واجب ہے اس سے لے لو لیکن اسے کھاؤ نہ بلکہ صدقہ کر دو، مسجدوں میں، راستوں میں یا دیگر اچھائی کے کاموں میں صرف کر دو، لیکن جو سود وصول کیا جا چکا ہے اور میت نے خود وصول کیا ہے، اس کا گناہ میت کو ہوگا لیکن جو ابھی تک وصول نہیں ہوا، ورثا کا اس کو اپنے لیے وصول کرنا جائز نہیں، بلکہ اسے صرف رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف کرنے کے لیے وصول کریں، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ سود ہے تو پھر وہ اسے وصول ہی کیوں کریں؟ ہم کہیں گے یہ سود خور جس نے سود ادا کیا ہے، راضی خوشی سودی لین دین کرتا رہا ہے، لہٰذا ہم اسے یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اس مدت میں ان پیسوں سے فائدہ بھی اٹھاتا رہے اور سود سے بھی، لہٰذا اسے کہیں گے، لاؤ، اس سے لے کر ہم یہ مال رفاہ عامہ کے کاموں میں صرف کر دیں گے اور اگر وہ یہ سمجھیں کہ مصلحت سود نہ لینے میں ہے، مثال کے طور پر اگر وہ فقیر ہو تو پھر اس سے بالکل ہی نہ لیں۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 13/135]