وتروں کی تعداد
علاوہ ازیں نو ، سات ، پانچ اور تین رکعت وتر پڑھنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے البتہ ان میں سے صرف نو رکعت وتر پڑھتے ہوئے دو تشہد ہوں گے جن میں سے پہلا آٹھ رکعتوں کے بعد ہو گا اور دوسرا آخری رکعت کے بعد اور باقی وتروں میں صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لیے بیٹھا جائے گا۔ ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رات کو وتر کی ) نو رکعتیں ادا کیں۔ ان میں صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھے پھر نویں رکعت پڑھ کر سلام پھیرا .
[مسلم: 746 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب جامع صلاة الليل ، أبو داود: 1342 ، نسائى: 240/3 ، بيهقي: 30/3]
➋ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله يو تر بسبع أو بخمس لا يفصل بينهن بتسليم ولا كلام
”رسول اللہ سات یا پانچ وتر پڑھتے تو ان کے درمیان سلام یا کلام کے ساتھ فاصلہ نہیں کرتے تھے۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 980 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ماجاء فى الوتر بثلات وخمس وسبع وتسع ، ابن ماجة: 1192 ، أحمد: 239/3 ، نسائي: 239/3]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ وتر پڑھتے اور ان میں صرف آخری رکعت میں بیٹھتے تھے ۔“
[مسلم: 237 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة الليل وعدد ركعات النبى ، دارمي: 371/1 ، أبو داود: 1338 ، ترمذي: 459]
➍ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتـرحـق على كل مسلم فمن أحب أن يوتر بخمس فليفعل ومن أحب أن يوتر بثلاث فليفعل ومن أحب أن يوتر بواحدة فليفعل
”وتر ہر مسلمان پر حق ہے۔ جسے پانچ وتر پڑھنا پسند ہو وہ ایسا کر لے ، جسے تین وتر پڑھنا پسند ہو وہ اس طرح کر لے ، اور جسے ایک وتر پڑھنا پسند ہو تو وہ بھی ایسا کر لے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1260 ، كتاب الصلاة باب كم الوتر ، أبو داود: 1422 ، ابن ماجة: 1190 ، نسائي: 238/3 ، أحمد: 418/5 ، دارمي: 371/1]
➎ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تو تروا بثلاث ولا تشبهو بصلاة المغرب
”تین رکعت وتر نہ پڑھو اور مغرب کی نماز سے مشابہت نہ کرو۔“
[دار قطني: 24/2 ، شرح معاني الآثار: 292/1 ، بيهقي: 31/3 ، حاكم: 304/1 ، امام حاكمؒ نے اس حديث كو شيخين كي شرط پر صحیح كها هے اور امام دار قطنيؒ نے اس كے راويوں كو ثقه قرار ديا هے۔]
(ابن حجرؒ) ممانعت کو ایسی تین رکعت نماز پر محمول کیا جائیگا جس میں دو تشہد ہوں اور بلاشبہ سلف نے اسی طرح کیا ہے یعنی ایک تشہد کے ساتھ ہی وتر پڑھے ہیں ۔
[فتح الباري: 558/2 – 559]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[تحفه الأخوذى: 567/2]
(جمہور، مالکؒ ، شافعیؒ ، احمدؒ ) رکعاتِ وتر کی جتنی تعداد مختلف احادیث سے ثابت ہے ان میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
(احناف) تین وتر سے نہ کم درست ہے اور نہ ہی زیادہ ۔
[نيل الأوطار: 230/2 ، الأم: 259/1 ، المبسوط: 156/1 ، المغنى: 578/2 ، بداية المحتهد: 157/1]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے جس پر تمام گذشتہ احادیث شاہد ہیں ۔
[تحفة الأحوذي: 565/2]
وتر کا حکم
اس کے حکم میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(جمہور، احمدؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ) وتر واجب نہیں ہے بلکہ سنت موکدہ ہے۔
(ابو حنیفہؒ) وتر واجب ہے (امام ابو حنیفہؒ سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ وتر فرض ہے ) ۔
[الأم: 257/1 ، بدائع الصنائع: 270/1 ، المغنى: 578/2 ، الهداية: 65/1 ، نيل الأوطار: 238/2]
(راجح) وتر سنت موکدہ ہے واجب نہیں ہے۔
(شوکانیؒ) عدم وجوب کے قائل ہیں ۔
[نيل الأوطار: 238/2]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[تحفة الأحوذى: 554/2]
(ابن قدامهؒ) وترسنت موکدہ ہے۔
[المغنى: 595/2]
(ابن حزمؒ) وتر فرض نہیں ۔
[المحلى بالآثار: 92/2]
(امیر صنعانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[سبل السلام: 529/2]
(صدیق حسن خانؒ ) وتر سنت موکدہ ہے۔
[الروضة الندية: 300/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ليس الوتر بحتم كهيئة المكتوبة ولكن سنة سنها رسول الله
”وتر فرضوں کی طرح حتمی و لازمی نہیں ہے بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے ۔“
[صحيح: صحيح الترغيب: 590 ، ترمذي: 453 – 454 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء أن الوترليس بحتم ، نسائى: 228/3 ، أبو داود: 1416 ، ابن ماجة: 1169 ، ابن خزيمة: 1067 ، شيخ محمد صجی حسن طلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 28/3]
➋ جس حدیث میں ہے :
الوتر حق فمن لم يوتر فليس منا
”وتر حق ہے لٰہذا جس نے وتر نہ پڑھا وہ ہم میں سے نہیں۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: إرواء الغليل: 417 ، أبو داود: 1419 ، كتاب الصلاة: باب فيمن لم يوتر ، أحمد: 357/5 ، حاكم: 305/1 ، بيهقي: 470/2 ، حافظ ابن حجرؒ نے اسے ضعيف كها هے۔ تلخيص الحبير: 20/2 ، امام زيلعيؒ نے بهي اسے ضعيف كها هے۔ نصب الراية: 112/2]
وتر کا وقت
وتر کا وقت عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر ما بين صلاة العشاء إلى طلوع الفجر
”وتر (کا وقت ) نماز عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 597 ، إرواء الغليل: 423 ، الصحيحة: 108 ، أبو داود: 1418 ، كتاب الصلاة: باب استحباب الوتر ، ترمذي: 452 ، ابن ماجة: 1168 ، اس حديث كي مزيد اسناد اور شواهد ديكهنے كے ليے ملاحظه فرمائيے۔ نصب الراية: 109/2 ،
تلخيص الحبير: 16/2 ، إرواء الغليل: 158/2 ، شيخ محمد صجي حلاق نے اسے صحيح كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 39/3]
➋ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اوتروا قبل أن تصبحوا
”صبح سے پہلے وتر پڑھو۔“
[مسلم: 754 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب صلاة الليل مثنى مثنى ، ترمذي: 467 ، نسائي: 231/3 ، ابن ماجة: 1189 ، أحمد: 14/3 ، حاكم: 301/1 ، أبو عوانة: 309/2 ، بيهقي: 478/2]
جسے یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری اوقات میں بیدار نہیں ہو سکے گا اسے چاہیے کہ وہ وتر پڑھ کر سوئے لیکن اگر یہ اندیشہ نہ ہو تو رات کے آخری حصے میں ہی وتر پڑھنا افضل ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آيكم خاف أن لا يقوم من آخر الليل فليوتر ثم ليرقد
”تم میں سے جسے یہ خدشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ وتر پڑھ لے پھر سو جائے ۔“
[أحمد: 315/3 ، مسلم: 755 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب من خاف أن لا يقوم ، ترمذى: 455 ، ابن ماجة: 1187 ، ابن خزيمة: 1086]
وتر کی قضاء
➊ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا ذكر وإذا استيقظ
”جو شخص وتر کے وقت سویا رہ جائے یا اسے وتر پڑھنا بھول جائے تو جب اسے یاد آئے یا جب وہ بیدار ہو اسی وقت پڑھ لے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 386 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الرجل ينام عن الوتر أو ينساه ، ترمذى: 465 ، أبو داود: 1431 ، ابن ماجة: 1188 ، أحمد: 31/3 ، بيهقي: 480/2 ، دارقطني: 171/1 ، حاكم: 302/1]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
من نام عن وتره فليصل إذا أصبح
”جو شخص وتر کے وقت سویا رہ جائے جب صبح ہو تو وہ وتر پڑھ لے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 378 أيضا ، ترمذى: 469]
➌ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ :
إذا منعه من قيام الليل نوم أو وجع صلى من النهار اثنتى عشرة ركعة
”جب نیند یا کوئی تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قیام الیل سے رکاوٹ بن جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں بارہ رکعتیں ادا فرما لیتے تھے ۔“
[دارمي: 1439 ، كتاب الصلاة: باب صفة صلاة رسول الله]
جمہور ، صحابہ ، تابعین اور آئمہ کے نزدیک وتر کی قضاء مستحب ہے۔
[نيل الأوطار: 262/2]
لیکن انہوں نے قضاء کے وقت میں اختلاف کیا ہے۔
(شافعیؒ) جب بھی یاد آئے وتر پڑھ لے حتی کہ صبح کے فوراً بعد بھی درست ہے۔
(مالکؒ ، احمدؒ ) صبح کے بعد وتر کی قضا نہ دی جائے ۔
[أيضا]
(راجع) اس مسئلے میں شافعی مذہب گذشتہ احادیث کے زیادہ قریب ہونے کی بنا پر راجح ہے۔
[تحفة الأحوذى: 582/2]
وتر میں قراءت
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربك الاعلي اور دوسری میں قل يأيها الكفرون اور تیسری میں قل هو الله أحد پڑھتے تھے۔
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 961 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ما جاء فيما يقرأ فى الوتر ، ابن ماجة: 1171 ، نسائي: 235/3 ، دار قطني: 31/2 ، بيهقي: 40/3]
قنوت وتر
قنوت وتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف رکوع سے پہلے ثابت ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر فيقنت قبل الركوع
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 970 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ما جاء فى القنوت قبل الركوع ، ابن ماجة: 1182 ، إرواء الغليل: 462]
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی جس روایت میں قبل الركوع و بعده ”رکوع سے پہلے اور بعد“ میں قنوت کا ذکر ہے وہ نماز فجر کے متعلق ہے ، قنوت وتر کے متعلق نہیں جیسا کہ اسی حدیث میں یہ ذکر موجود ہے۔
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 971 ، أيضا ، إرواء الغليل: 160/2 ، ابن ماجة: 1183]
تاہم رکوع کے بعد بھی قنوت کی جا سکتی ہے جیسا کہ خلفائے اربعہ وغیرہ کے عمل سے یہ بات ثابت ہے۔
[نيل الأوطار: 258/2]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی قنوت نازلہ رکوع کے بعد کیا کرتے تھے۔
[بخاري: 1002]
◈ کسی صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت وتر کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں جیسا کہ سنن نسائی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم لا يرفع يديه فى شيئ من دعائه إلا فى الاستسقاء
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف نماز استسقاء میں ہاتھ اٹھا کر دعا فرماتے تھے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 1649]
البتہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے عمل سے ہاتھ اٹھانا ثابت ہے جیسا کہ امام بخاریؒ نے جزء رفع اليدين میں ذکر فرمایا ہے۔
[تحفة الأحوذى: 580/2]
اس قنوت کے لیے تکبیر تحریمہ کے رفع الیدین کی طرح رفع الیدین کا ثبوت بھی مفقود ہے البتہ احناف بعض غیر صریح آثار کی بنا پر اس رفع الیدین کے قائل ہیں ۔
[تحفة الأحوذي: 581/2]
امام طاؤس کے نزدیک قنوت وتر بدعت ہے جیسا کہ امام ابن منذر نے نقل کیا ہے۔
[والأوسط لابن المنذر: 207/5]
لیکن یہ بات گذشتہ صیح احادیث کی مخالفت کی وجہ سے مردود اور باطل ہے۔
قنوت وتر کی دعائیں
➊ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے جنہیں میں قنوت وتر میں پڑھتا (وہ یہ ہیں ) اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيْمَنُ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيْمَنُ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكَ لِي فِيْمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِى وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَكُتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ
[صحيح: صحيح أبو داودـ 1263 ، كتاب الصلاة: باب القنوت فى الوتر ، أبو داود: 1425 ، ترمذي: 464 ، نسائي: 248/3 ، ابن ماجة: 1178 ، ابن خزيمة: 1095 ، أحمد: 199/1]
لا يذل من واليت کے بعد ولا يعز من عاديت کے الفاظ سنن بیہقی کی روایت میں ہیں ۔
[بيهقي: 209/2]
(شوکانیؒ) یہ دعا صرف وتروں میں پڑھی جائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے۔
[السيل الجرار: 229/1]
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے ۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ ، أَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ لَا أَحْصِى ثَنَاءٌ عَلَيْكَ ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ
[صحيح: صحيح أبو داود: 1265 ، أيضا ، أبو داود: 1427 ، ترمذي: 3566 ، أحمد: 96/1 ، ابن ماجة: 1179 ، حاكم: 306/1 ، بيهقي: 42/3]
◈ پہلی دعا میں تباركت ربنا و تعاليت کے بعد وصلى الله على النبي کے الفاظ ثابت نہیں ہیں ۔
[ضعيف: ضعيف نسائي: 106]
(ابن حجرؒ ) جن روایات میں ان الفاظ کا اضافہ ہے وہ تمام منقطع ہیں۔
[تلخيص الحبير: 449/1]
البتہ امام نوویؒ نے کہا ہے کہ ان الفاظ کا اضافہ صحیح یا حسن سند کے ساتھ مروی ہے۔
[شرح المهذب: 476/3]
◈ نماز وتر سے فارغ ہونے کے بعد تین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔
[صحيح: صحيح نسائي: 1604 ، كتاب القيام الليل: باب ذكر اختلاف الفاظ الناقلين ، نسائي: 1700]
وتر کے بعد نوافل
اگرچہ بعض روایات میں وتر کو رات کی آخری نماز قرار دیا گیا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا
”وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ ۔“
[بخاري: 998 ، كتاب الجمعة: باب ليجعل آخر صلاته وترا ، مسلم: 751 ، أبو داود: 1438 ، نسائي: 230/3 ، أبو عوانة: 333/2 ، أحمد: 143/2 ، بيهقى: 34/3]
لیکن درج ذیل صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم محض استحباب کے لیے ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد بھی دو رکعت ادا فرما لیا کرتے تھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يركع ركعتين بعد الوتر
نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 392 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء لا وتران فى ليلة ، ترمذى: 471 ، أحمد: 298/6 ، ابن ماجة: 1195]
اس لیے اگر کوئی شخص وتر پڑھ کے سو جائے پھر رات کو پچھلے پہر اٹھ کر نوافل ادا کرے تو وہ آخر میں دوبارہ وتر نہیں پڑھے گا کیونکہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مرعی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاوتران فى ليلة ”ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔ “
[صحيح: صحيح ترمذي: 391 ، ابو داود: 1439 ، كتاب الصلاة: باب فى فقص الوتر ، ترمذي: 468 ، نسائي: 229/3 ، بيهقي: 36/3 ، ابن خزيمة: 1101]
امام احمد ، امام شافعی ، امام مالک ، امام ثوری ، امام ابن مبارک اور امام ابن حزم رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ کا بھی ہہی موقف ہے اور یہی راجح و برحق ہے۔
[تحفة الاحوذي: 588/2 ، بيل الاوطار: 259/2 ، المحلي بالآثار: 91/2]