نیت کے ساتھ نوعِ حج کی تعیین واجب ہے
◈ حجِ تمتع سے مراد حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہونا ، پھر عمرہ کر کے احرام اتار دینا اور پھر غیر محرم ہی رہنا ، حتی کہ ایام حج میں حج کرنا ہے اور اس حج میں قربانی کرنا ضروری ہے۔
◈ حجِ قرآن سے مراد میقات سے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر عمرہ کرنا لیکن سعی کے بعد نہ بال اتروانا اور نہ ہی احرام کھولنا بلکہ حالت احرام میں ہی ایام حج کے انتظار میں رہنا حتی کہ ان ایام میں حج مکمل کرنا ہے۔ حجِ قران کرنے والے پر قربانی واجب ہے اور جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دس روزے رکھے۔ قربانی اگر ساتھ لے جائے تو بہتر ہے کیونکہ یہی مسنون طریقہ ہے۔ اس میں تین طواف (طواف عمرہ ، طواف حج اور طواف وداع ) اور دو سعی (سعی عمرہ اور سعی حج ) ضروری ہیں۔
◈ إفراد سے مراد حجِ مفرد یا عمرہ مفردہ ہے۔ حجِ مفرد میقات سے صرف حج کے لیے احرام باندھ کر تمام مناسکِ حج سر انجام دینے کو کہتے ہیں اور عمرہ مفردہ میقات سے صرف عمرے کے قصد سے احرام باندھ کر عمرے کے تمام افعال سے فراغت حاصل کرتا ہے۔ واضح رہے کہ ان میں قربانی واجب نہیں ہے۔
چونکہ تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے لٰہذا ہر قسم کی الگ نیت کرنا واجب ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع کے سال نکلے:
فمنا من أهل بعمرة ، ومنا من أهل بحج وعمرة ، ومنا من أهل بحج
”ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے عمرے کے لیے تلبیہ کہا ، کچھ وہ تھے جنہوں نے حج اور عمرہ (دونوں) کے لیے تلبیہ کہا اور بعض وہ تھے جنہوں نے حج کے لیے تلبیہ کہا“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کا تلبیہ کہا۔
(لیکن دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن تھے ) پھر جنہوں نے عمرے کے لیے لبیک کہا تھا وہ حلال ہو گئے اور جنہوں نے حج کے لیے یا حج اور عمرہ (دونوں) کے لیے لبیک کہا تھا وہ حلال نہ ہوئے حتی کہ قربانی کا دن آ گیا۔“
[بخارى: 1562 ، كتاب الحج: باب التمتع والإقران والإفراد بالحج ، مسلم: 1211 ، ابو داود: 1779 ، نسائي: 154/5 ، مؤطا: 335/1 ، ابن ماجة: 3000 ، أحمد: 191/6 ، ابن خزيمة: 166/4]
(نوویؒ) ان تینوں اقسام کے جواز پر اجماع ہے۔
[شرح مسلم: 427/4]