نیت کی حقیقت اور زبانی نیت کے رواج کی شرعی حیثیت

حدیثِ نبوی ﷺ: نیت کی اہمیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
(بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول الله، ۱، ومسلم، الامارۃ، باب قولہ انما الاعمال بالنیۃ: ۷۰۹۱)

یہ حدیث اس بات کی بنیادی دلیل ہے کہ ہر جائز عمل سے قبل خالص نیت کرنا ضروری ہے، کیونکہ انسان کو وہی پھل ملتا ہے جو اس کی نیت کے مطابق ہوتا ہے۔

نیت کے اثرات کا عملی مظاہرہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’قیامت کے دن ایک شہید ﷲ کے سامنے لایا جائے گا ﷲ اس سے پوچھے گا کہ تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں تیری راہ میں لڑ کر شہید ہوا۔ اﷲ فرمائے گا: ’تو جھوٹا ہے بلکہ تو اس لیے لڑا کہ تجھے بہادر کہا جائے‘ پس تحقیق کہا گیا (یعنی تیری نیت دنیا میں پوری ہو گئی۔ اب مجھ سے کیا چاہتا ہے) پھر منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک شہرت کی غرض سے سخاوت کرنے والے مالدار اور ایک عالم کا بھی یہی حشر ہو گا۔‘‘
(مسلم، الامارۃ، باب من قاتل للریاء والسمعۃ استحق النار، ۵۰۹۱)

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ صرف عمل کافی نہیں، بلکہ نیت کا خالص ہونا بھی ضروری ہے۔

وضو اور نماز میں نیت کا صحیح طریقہ

نماز سے پہلے اور وضو کرتے وقت دل میں یہ ارادہ ہونا چاہیے کہ:

◈ اللہ کی رضا کے لیے طہارت حاصل کر رہا ہوں۔
◈ نماز صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ادا کی جا رہی ہے۔

زبانی نیت بدعت ہے

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’وضو اور نماز کی نیت کے الفاظ کو زبان سے ادا کرنا بدعت ہے۔ کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں لہٰذا اسے ترک کر دینا واجب ہے۔ نیت کا مقام دل ہے لہٰذا الفاظ کے ساتھ نیت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول، ص ۱۱۴)

نماز سے پہلے زبان سے نیت پڑھنے کی تردید

نماز سے پہلے زبانی نیت کرنے کا رواج عقل، نقل اور لغت تینوں کے خلاف ہے۔

1. عقل کے خلاف:
روزمرہ کے بیشتر کام مثلاً جوتا پہننا، کھانا کھانا، چلنا وغیرہ ہم بغیر زبان سے نیت پڑھے انجام دیتے ہیں کیونکہ ارادہ دل میں موجود ہوتا ہے۔
تو نماز ہی ایسا عمل کیوں ہو کہ جس کی نیت زبان سے کی جائے؟
نماز کے لیے انسان جب اذان سن کر مسجد کی طرف روانہ ہوتا ہے، تو یہی اس کی نیت کا اظہار ہے۔
اس لیے نماز شروع کرتے وقت جو کچھ زبان سے پڑھا جاتا ہے وہ نیت نہیں بلکہ بدعت ہے۔

2. نقل کے خلاف:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نمازیں باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔
اگر وہ زبانی نیت کرنا چاہتے تو اس میں کوئی رکاوٹ نہ تھی، مگر ان سے ایسا کرنا ثابت نہیں۔
وہ ہمیشہ نماز کی ابتداء تکبیر تحریمہ (ﷲ أکبر) سے کرتے تھے۔
لہٰذا نماز سے پہلے نیت نہ پڑھنا ہی سنت ہے۔

3. لغت کے خلاف:
عربی زبان میں "نیت” کا مطلب "ارادہ” ہے اور ارادہ دل سے کیا جاتا ہے، زبان سے نہیں۔
جیسے دیکھنے کا کام آنکھ سے ہوتا ہے، پاؤں سے نہیں – بالکل اسی طرح نیت زبان سے نہیں دل سے ہوتی ہے۔

نیت کے بارے میں بعض شبہات کا ازالہ

بعض لوگ درج ذیل چیزوں سے نماز میں زبانی نیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

روزہ رکھنے کی دعا: اس حوالے سے حدیث ضعیف ہے، لہٰذا حجت نہیں بنتی۔
حج کے تلبیہ کا بلند آواز سے کہنا: تلبیہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اس لیے کہنا ضروری ہے۔
نکاح میں ایجاب و قبول: نکاح حقوق العباد سے متعلق ہے، اور اس میں نیت کے ساتھ اقرار، تحریر، اور گواہی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔

نماز بندے کا رب کے ساتھ تعلق ہے، جہاں صرف دل کی نیت ہی کافی ہے، کیونکہ رب تعالیٰ دلوں کے ارادوں سے بخوبی واقف ہے۔

لہٰذا اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ نماز سے پہلے زبانی نیت کی بدعت سے بچیں اور سنت طریقہ اختیار کریں۔
(ع، ر)

ائمہ کرام کے اقوال

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:
’’الفاظ سے نیت کرنا علماء مسلمین میں سے کسی کے نزدیک بھی مشروع نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خلفاء راشدین، دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور امت کے سلف و ائمہ میں سے کسی نے الفاظ سے نیت نہیں کی۔
عبادات جیسے وضو، غسل، نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ میں جو نیت واجب ہے، اس کی جگہ دل ہے، اس پر تمام ائمہ مسلمین کا اجماع ہے۔‘‘
(الفتاوی الکبریٰ)

امام ابن ہمام اور ابن قیم رحمہم اللہ:
ان دونوں جلیل القدر علماء نے بھی زبان سے نیت کرنے کو بدعت قرار دیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1