ترکِ نماز کفر کا اعلان ہے
نماز اور کفر کے درمیان حدِ فاصل
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ‘‘
’’آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق (رکاوٹ) نماز چھوڑ دینا ہے۔‘‘
(مسلم، الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوۃ، ۲۸)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نماز اسلام اور کفر کے درمیان ایک دیوار کی مانند ہے۔
دوسرے الفاظ میں، نماز کا چھوڑ دینا ایسا عمل ہے جو انسان کو کفر کی سرحد تک پہنچا دیتا ہے۔
نماز کا ترک، کفر کا اظہار
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ‘‘
’’ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان (فرق کا) معاہدہ نماز ہے، پس جس نے اسے چھوڑ دیا، اس نے کفر کیا۔‘‘
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلوۃ، باب ما جاء فیمن ترک الصلوۃ، ۹۷۰۱، ترمذی ۱۲۶۲، اسے ترمذی، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ہی وہ عہد ہے جو مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔
منافقوں کو جو ظاہری امن اور تحفظ حاصل ہے، وہ نماز کی ظاہری پابندی کی وجہ سے ہے۔
نماز چھوڑنے والا گویا خود کو کافر ظاہر کر دیتا ہے اور مسلمانوں کی جماعت سے خود کو الگ کر لیتا ہے۔
صحابہ کرام کا مؤقف
عبد اللہ بن شقیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اعمال میں سے کسی چیز کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے۔‘‘
(ترمذی، الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلوۃ، ۲۲۶۲، امام حاکم ۱/۷ اور ذہبی نے صحیح کہا)
اس قول سے صحابہ کرام کی نماز کے بارے میں شدید حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک نماز چھوڑ دینا ایسا جرم تھا جو کفر کے مترادف تھا۔
فرض نماز کا جان بوجھ کر ترک
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دے تو یقیناً اس (کی بابت ﷲ کا معاف کرنے) کا ذمہ ختم ہو گیا۔‘‘
(ابن ماجہ، الفتن، باب الصبر علی البلاء، ۴۳۰۴، اس کی سند امام ذہبی اور ابن حجر کی شرط پر حسن ہے)
فرض نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والا اللہ کی طرف سے کسی ضمانت یا معافی کا مستحق نہیں رہتا۔
دین کی پہلی اور آخری گم شدہ چیز
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم دین میں سب سے پہلی چیز جو گم پاؤ گے وہ امانت ہو گی اور آخری چیز نماز ہو گی۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۹۴۷۱)
دین کے زوال کی نشانیوں میں سب سے پہلے امانت اور سب سے آخر میں نماز کا ضیاع شامل ہے۔
نماز چھوڑ دینا دین سے آخری تعلق کو ختم کرنا ہے۔
نشے کی وجہ سے نماز کا ترک
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک نماز چھوڑی تو گویا اس سے دنیا اپنے تمام تر سامان کے ساتھ چھین لی گئی اور جس شخص نے نشے کی وجہ سے چار مرتبہ نماز چھوڑی تو اللہ پر لازم ہے کہ اسے اہل جہنم کا پیپ (طینۃ الخبال) پلائے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۹۱۴۳)
ایک نماز کا نشے کی وجہ سے فوت ہو جانا دنیا کی ساری نعمتوں سے محرومی کے مترادف ہے۔
چار مرتبہ ایسا کرنا جہنم کی سخت ترین سزا کا سبب بنتا ہے۔
نمازِ عصر کی خاص اہمیت
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کی نماز عصر فوت ہو جائے تو گویا اس کا اہل اور مال ہلاک کر دیا گیا۔‘‘
(بخاری، مواقیت الصلوۃ، باب اثم من فاتتہ العصر، ۲۵۵، مسلم، المساجد، باب التغلیظ فی تفویت صلاۃ العصر ۶۲۶)
عصر کی نماز کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس کا فوت ہونا گویا سب کچھ کھو دینے کے برابر ہے۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے نماز عصر چھوڑ دی پس اس کے اعمال باطل ہو گئے۔‘‘
(بخاری: مواقیت الصلوۃ، باب التبکیر بالصلوۃ فی یوم غیم، ۴۹۵)
نمازِ عصر کا ترک نہ صرف ایک بڑی کوتاہی ہے بلکہ یہ انسان کے تمام اعمال کے ضائع ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
یہ تمام احادیث اور آثار اس بات کی شدت سے نشاندہی کرتے ہیں کہ نماز کو ترک کرنا کفر کی حد تک پہنچنے والا عمل ہے۔ مسلمان کو ہر حالت میں نماز کی حفاظت کرنی چاہیے، کیونکہ یہ ایمان اور اسلام کے مابین ایک حد فاصل ہے۔