نماز کے فرائض کی تین اقسام ہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نماز کے فرائض کی تین اقسام ہیں

① ارکان ② واجبات ③ شروط
لغوی وضاحت : لفظ ”ارکان“ رکن کی جمع ہے جو کہ باب رَكَنَ يَرْكُنُ (منع) سے مصدر ہے اور اس کا معنی ”مائل ہونا“ مستعمل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا
[هود: 113]
”ظالموں کی طرف مائل نہ ہو جاؤ ۔“
[المنجد: ص/ 310 ، القاموس المحيط: ص/ 1082]
اصطلاحی تعریف:
مالا يتم المامور به إلا به ولا اعتبار له فى الشرع مع عدمه
[كشف الأسرار للبخارى: 344/3 ، التعريفات للجرجاني: ص/ 99 ، أصول السرخسي: 174/2 ، المنار لابن الملك: ص/ 781 ، الفرائض: ص / 17]
”رکن ایسی چیز ہے کہ واجب التعمیل کام اس کے بغیر مکمل نہ ہو اور رکن کے نہ ہونے سے شریعت میں اس کام کا کوئی اعتبار نہ ہو۔“
جیسے قیام ، فاتحہ ، رکوع ، سجدہ ، اعتدال اور آخری تشہد کے لیے بیٹھنا۔ بعض حضرات نے تکبیر تحریمہ کو بھی نماز کے ارکان میں شامل کیا ہے۔ ان افعال کے ارکان ہونے کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے بواسیر کی بیماری تھی میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلى جنب
[بخاري: 1117 ، كتاب الجمعة: باب إذا لم يطق قاعدا صلى على جنب]
”کھڑے ہو کر نماز پڑھو ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔“
➋ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
[بخاري: 756 ، كتاب الأذان: باب وجوب القرأة للإمام والماموم ، مسلم: 394 ، أبو داود: 8220 ، ترمذي: 247 ، نسائي: 137/2 ، ابن ماجة: 837 ، أحمد: 314/5 ، دارمي: 283/1 ، دارقطني: 321/1 ، بيهقي: 38/2]
”اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی۔“
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس آدمی نے نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر سلام کہا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:
ارجع فصل فإنك لم تصل
”واپس جا اور (دوبارہ) نماز پڑھ کیونکہ بے شک تو نے نماز نہیں پڑھی۔“
وہ شخص واپس گیا اور اس نے دوبارہ نماز پڑھی۔ پھر آ کر سلام کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دینے کے بعد دوبارہ فرمايا:
ارجع فصل فإنك لم تصل
”واپس جا اور (دوبارہ) نماز پڑھ کیونکہ بے شک تو نے نماز نہیں پڑھی۔“
پھر اس شخص نے بلآخر دوسری مرتبہ یا اس سے اگلی مرتبہ کہا اے اللہ کے رسول مجھے سکھا دیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا قمت إلى الصلاة فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فكبر ثم اقراء بما تيسر معك من القرآن ثم اركع حتى تطمئن راكعا ثم ارفع حتى تستوى قائما ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ، ثم ارفع حتى تطمئن جالسا ، ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تطمئن جالسا ، ثم افعل ذلك فى صلاتك كلها
[بخاري: 6251 ، كتاب الاستئذان: باب من رد فقال عليك السلام ، مسلم: 397 ، ابو داود: 856 ، ترمذي: 1303 ، نسائي: 125/2 ، ابن ماجة: 447 ، 1060]
”جب تم نماز کا ارادہ کرو تو پہلے اچھی طرح وضوء کرو پھر قبلہ رخ ہو کر تکبیر کہو۔ پھر قرآن کا وہ حصہ جو تمہیں یاد ہے اس میں سے جتنا آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لو۔ پھر رکوع کرو اور پوری طرح اطمینان سے رکوع کرو ۔ پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور پورے اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو اور پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو۔ پھر سجدے سے اپنا سر اٹھا کر پورے اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ ۔ پھر دوسرا سجدہ کرو اور پورے اطمینان سے سجدہ کرو۔ پھر سجدے سے سر اٹھا کر پورے اطمینان سے بیٹھ جاؤ ۔ پھر اپنی بقیہ ساری نماز اسی طرح ادا کرو۔
➍ سنن ابی داود کی ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیئ الصلاۃ کے متعلق فرمايا:
أنه لا تتم صلاة لأحد من الناس حتى يتوضأ فيضع الوضوء يعني مواضعه ثم يكبر
[صحيح: صحيح أبو داود: 763 ِ، كتاب الصلاة: باب صلاة من لا يقيم صلبه فى الركوع والسجود ، أبو داود: 857]
”کسی بھی انسان کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ وضوء کرے اور وضوء کی جگہوں کو عمدگی سے دھوئے پھر تکبیر کہے .“

➎ حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تحزئ صلاة الرجل حتى يقيم ظهره فى الركوع والسجود
[صحيح: صحيح أبو داود: 761 ، أيضا ، أبو داود: 855 ، ترمذي: 265 ، ابن ماجة: 870 ، أحمد: 119/4 ، دارمي: 304/1 ، ابن خزيمة: 591]
”آدمی کی نماز اس وقت تک کفایت نہیں کرتی جب تک کہ وہ رکوع اور سجدے میں اپنی کمر سیدھی نہ رکھے۔“
➏ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
لا تحزئ صلاة إلا بتشهد
[عبد الرزاق: 3080 ، الأوسط لابن المنذر: 3217/3 ، بيهقي: 139/2]
”تشہد کے بغیر نماز کفایت نہیں کرتی ۔“
بعض علماء کا خیال ہے کہ میسئ الصلاۃ کی حدیث (یعنی گذشتہ حدیث ) واجبات نماز کو پہچانے کے لیے مرجع ہے یعنی ہر وہ فعل جو اس میں ذکر کیا گیا ہے وہ واجب ہے اور جو اس میں نہیں ہے یا وہ واجب نہیں ہے یا اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔
[نيل الأوطار: 688/1 ، سبل السلام: 377/1]
لیکن حق بات یہی ہے کہ کچھ ایسے افعال بھی واجب ہیں جو اس حدیث میں نہیں ہیں مثلاََ آخری تشہد اور نماز کے آخر میں سلام وغیرہ۔
(شوکانیؒ) قیام نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔
[السيل الجرار: 213/1]
(ابن حجرؒ ) جمہور کے نزدیک تکبیر تحریمہ رکن ہے۔
[فتح البارى: 456/2]
لغوی وضاحت: لفظ ”واجب“ باب وَجَبَ يَجِبُ (ضرب) سے اسم فاعل کا صیغہ ہے کہ جس کا معنی ”ساقط ہونا“ ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ حين و جبت الشمس ”جب سورج ساقط ہو جائے ۔“
[القاموس المحيط: ص/ 130]
اصطلاحی تعريف:
هو الفعل الذى طلب الشارع طلبا جازما بحيث يثاب فاعله و يعاقب تاركه
”ایسا کام جسے شارع علیہ السلام نے بالجزم طلب کیا ہو اس حیثیت سے کہ اس کے کرنے والے کو ثواب دیا جائے اور اس کے چھوڑنے والے کو سزا دی جائے ۔
[الإحكام للأمدى: 19/1 ، البحر المحيط للزركشى: 176/1]
جیسے تشہد اور سلام وغیرہ۔ ان کا بیان آگے آئے گا۔
لغوی وضاحت:
لفظ ”شروط“ شرط کی جمع ہے کہ جس کا معنی ”کسی چیز کو لازم کر لینا ہے۔“
[القاموس المحيط: ص/ 605]
ٓاصطلاحی تعریف:
ما يلزم من عدمه عدم الحكم ولا يلزم من وجوده وجود الحكم
[الاحكام للامدي: 121/1 ، الموافقات اللشاطني: 187/1 ، البحر المحيط للزركشي: 309/1]
”جس کے انتفاء سے حکم کا انتفاء لازم ہو جبکہ اس کے وجود سے حکم کا وجود لازم نہ ہو ۔“
جیسے نیت (اس کا بیان پیچھے گزر چکا ہے ) اور وضوء وغیرہ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يقبل الله صلاة احد كم اذا احدث حتي يتوضا
[بخاري: 6954 ، كتاب الحيل: باب فى الصلاة ، نسائي: 139 ، ابن ماجة: 270]
”اللہ تعالیٰ بے وضوء شخص کی نماز اس وقت تک قبول نہیں فرماتے جب تک کہ وہ وضوء نہ کر لے ۔“
یاد رے کہ رکن اور شرط دونوں کا معنی و مفہوم تقریباََ ایک ہی ہے ۔ (یعنی ان کے بغیر مطلوبہ فعل مکمل نہیں ہوتا) لیکن جب یہ دونوں اکٹھے آئیں تو ان میں فرق کیا جاتا ہے کہ کسی چیز کا رکن اس کی ماہیت میں داخل ہوتا ہے ۔ (جیسے رکوع اور سجدہ وغیرہ )
جبکہ شرط اس سے خارج ہوتی ہے۔ (جیسے نیت اور وضوء وغیرہ)
[التعريفات: ص/ 111 ، التوضيح بشرح التلوبح: 132/2 ، حاشية القلبوبي على شرح الجلال المحلي على مبهاج الطالبين: 175/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے