نماز کے دوران عورت کے ہاتھوں اور پاؤں کا ننگا ہونا
————–
سوال : دوران نماز عورت کے پاؤں اور ہتھیلیوں کے ننگا (ظاہر ) ہونے کا کیا حکم ہے ؟ واضح ہو کہ عورت مردوں کے سامنے نہیں بلکہ گھر میں ہے۔
جواب : حنابلہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ آزاد بالغ عورت دوران نماز چہرے کے علاوہ سر تا پا پردہ ہے، بناء بریں اس کے لئے نماز کے دوران ہاتھوں اور قدموں کا ننگا رکھنا جائز نہیں۔ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ عورت اس سے احتراز کرے۔ ویسے اگر کوئی خاتون یوں نماز ادا کر کے فتویٰ لینا چاہے تو کوئی شخص اسے نماز دھرانے کا حکم دینے کی جرات نہیں کر سکتا۔
رات کی آخری تہائی کی گھنٹوں میں تعین
————–
سوال : میں رات کی آخری تہائی کی تعیین گھنٹوں میں چاہتی ہوں ؟
جواب : رات کے آخری ثلث (1/3) کی گھنٹوں میں تعین تو ناممکن ہے، لیکن ہر انسان کے لیے اس کی معرفت ممکن ہے۔ وہ یوں کہ غروب شمس سے لے کر طلوع فجر تک کے کل وقت کو تین حصوں میں تقسیم کرے، رات کے پہلے دو حصے دو ثلث کہلاتے ہیں جبکہ تیسرا حصہ آخری تہائی ہو گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله عزوجل ينزل كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقي ثلث الليل الآخر فيقول : من يدعونى فأستجيب له ؟ من يسألنى فأعطيه ؟ من يستغفرلي فأغفر له ؟ [صحيح البخارى وصحيح مسلم]
” ہر رات کے ثلث آخر میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترتے ہیں اور فرماتے ہیں کون ہے جو مجھے پکارے ؟ میں اس کی حاجت پوری کروں، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے ؟ میں اسے عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے معافی چاہے ؟ اور میں اسے معاف کروں۔ “
بندۂ مومن کو چاہئیے کہ (اگرچہ قلیل وقت ہی سہی) اس وقت کو غنیمت سمجھے۔ شائد اسے یہ فضل عظیم میسر آ جائے۔ شاید وہ مولائے پاک کی رحمتوں کا کوئی حصہ حاصل کر پائے اور اس طرح اس کی دعائیں شرف قبولیت سے نوازی جائیں۔
عورت کا بازار میں نماز پڑھنا
————–
سوال : کیا عورتوں کا بازار میں نماز پڑھنا جائز ہے ؟
جواب : مردوں کے لئے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک عورت کا تعلق ہے تو اس کے لیے اس کا گھر سب سے بہتر جگہ ہے۔ اگر اسے بازار میں نماز ادا کرنے کی ضرورت پیش آ جائے اور وہاں پردے اور سترے کا اہتمام ہو تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
سجدہ تلاوت کا حکم
————–
سوال : اگر میں سجدہ والی آیت پڑھوں تو کیا مجھ پر سجدۂ تلاوت واجب ہے ؟
جواب : سجدہ تلاوت سنت مؤکدہ ہے۔ اس کا چھوڑنا مناسب نہیں، جب انسان سجدے والی آیت کی تلاوت کرے تو چاہے وہ زبانی پڑھ رہا ہو یا قرآن مجید دیکھ کر، نماز کے اندر ہو یا باہر، ہر حالت میں اسے سجدۃ تلاوت کرنا چاہئیے۔
سجدہ تلاوت اس طرح ضروری نہیں ہے کہ اس کے چھوڑنے سے انسان گناہ گار ہو جائے کیونکہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے منبر پر سورۂ نخل کی سجدے والی آیت تلاوت فرمائی، پھر نیچے اترے اور سجدہ تلاوت کیا۔ پھر اس آیت کی تلاوت دوسرے جمعہ کو فرمائی لیکن سجدہ نہ کیا۔ پھر فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدۂ تلاوت فرض نہیں کیا مگر یہ کہ ہم چاہیں“ آپ نے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں یہ کام کیا۔ نیز یہ بھی ثابت ہے کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورۂ نجم سے سجدہ والی آیت تلاوت کی اور سجدہ نہ کیا، اگر سجدۂ تلاوت واجب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سجدہ کرنے کا حکم فرماتے۔
پس سجدہ تلاوت سنت مؤکدہ ہے، اس کا نہ چھوڑنا افضل ہے۔ حتیٰ کہ ممنوع اوقات مثلاً فجر یا عصر (کی نماز) کے بعد بھی یہ سجدہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس سجدے کا ایک سبب ہے اور سبب والی نماز ممنوعہ اوقات میں ادا کی جا سکتی ہے، مثلاً سجدۂ تلاوت اور تحیۃ المسجد وغیرہ۔
عورت قیام نہیں کر سکتی، کیا وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے ؟
————–
سوال : ایک ایسی مریضہ جس کی کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اس پر پلستر چڑھایا گیا، وہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتی، اس لئے وہ ایک ماہ سے بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھ رہی ہے۔ کیا اس کی نماز درست ہے ؟
جواب : وہ عورت کیونکہ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے پر قادر نہیں لہٰذا اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے، قیام پر قدرت کی صورت میں فرض نماز میں قیام فرض ہے۔ جب عورت کمر کی ہڈی کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے قیام نہیں کر سکتی تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتی ہے۔ اگر وہ کسی لاٹھی یا دیوار وغیرہ کے سہارے کھڑی ہو سکتی ہو تو پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا چاہئیے۔ چونکہ عورت قیام پر قادر نہ تھی، لہٰذا اس کی گذشتہ مدت کی نمازیں درست ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا :
صل قائما، فان لم تستطع فقاعدا، فان لم تستطع فعلي جنب [رواه البخاري فى كتاب تقصير الصلاة]
”کھڑے ہو کر نماز پڑھ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پڑھ لے۔ “
بوجہ نیند نماز دیر سے پڑھنا
————–
سوال : میں نوجوان لڑکی ہوں، اکثر اوقات نیند کی وجہ سے میری مغرب کی نماز فوت ہو جاتی ہے۔ میں اس کی قضاء دوسرے دن صبح کے وقت یا اس کے بعد دیتی ہوں۔ اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے ؟
جواب : شرعی حکم یہ ہے کہ نماز میں اس قدر سستی کرنا کہ اس کا وقت ہی نکل جائے کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے۔ اگر انسان سو رہا ہو تو اس کے لئے کسی ایسے شخص کی ڈیوٹی لگانا ضروری ہے جو اسے نماز کے لئے جگائے، یہ ضروری ہے۔ مغرب یا عشاء کی نماز کو صبح تک لیٹ کرنا درست نہیں ہے۔ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا واجب ہے۔ اس نوجوان لڑکی کے لئے ضروری ہے کہ وہ گھر والوں میں سے کسی کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اسے نماز کے لئے جگا دے۔ بالفرض اگر کوئی شدید عارضہ لاحق ہو یا اس پر نیند کا غلبہ شدید ہو اور ڈر ہو کہ وہ آج صبح تک بیدار نہیں ہو سکے گی تو اس صورت میں اگر وہ مغرب اور عشاء کی نماز کو جمع کر لے تو کوئی حرج نہیں، مگر ایسا کرنا صرف خاص عوارض کی بناء پر جائز ہو گا۔ مثلاً یہ کہ وہ کئی راتیں جاگتی رہی ہو، یا اسے کوئی شدید بیماری لاحق ہو۔
نماز میں شک ہونا
————–
سوال : میں کبھی کبھی نماز میں بھول جاتی ہوں کہ میں نے سورۂ فاتحہ پڑھی ہے یا نہیں۔ اس پر میں سورۂ فاتحہ دوبارہ پڑھ لیتی ہوں۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے یا مجھے سجدہ سہو کرنا ہو گا ؟
جواب : بعض لوگوں کو دوران نماز کثرت سے وسوسے لاحق ہوتے رہتے ہیں اور انہیں قرأت یا تشہد میں شک پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان پوری یکسوئی اور حضور قلب سے نماز ادا کرے تاکہ وسوسے اور اوھام کم سے کم ہوں، پھر بھی اگر شک غالب رہے اور عام عادت قرأت کرنے کی ہو، تو ایسی صورت میں قرأت کا اعادہ و تکرار مکروہ ہے اور اگر احتیاطاً اعادہ ہو جائے تو سجدہ سہو لازم نہیں ہو گا۔
نماز عشاء دیر کر کے پڑھنا
————–
سوال : نماز عشاء کو آخری وقت تک مؤخر کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : عشاء کی نماز کو آخری وقت تک مؤخر کرنا افضل ہے، لیکن یہ حکم مردوں کے لئے نہیں ہے، کیونکہ اگر وہ اسے لیٹ کریں گے تو جماعت سے محروم رہیں گے اور تاخیر کے لئے جماعت چھوڑنا ناجائز ہے۔ گھروں میں موجود عورتیں جس قدر بھی اسے مؤخر کر کے ادا کریں یہ ان کے لئے افضل ہے۔ ہاں اسے نصف شب کے بعد تک موخر کرنا درست نہیں۔
توبہ سابقہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے
————–
سوال : میں پچیس سالہ نوجوان عورت ہوں۔ بچپن سے لے کر اکیس سال کی عمر تک سستی اور کاہلی کی بناء پر نماز پڑھی نہ روزے رکھے۔ میرے والدین مجھے نصیحت کرتے رہے، مگر میں نے کبھی پروا نہ کی۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ سے مجھے ہدایت عطاء فرمائی ہے اور میں نماز و روزہ کی پابندی کرنے گئی ہوں اور گذشتہ بے عملی پر نادم ہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
جواب : توبہ گزشتہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے لہٰذا گزشتہ کوتاہی پر نادم ہوں۔ عبادات الٰہیہ کو مکمل عزم و صداقت سے اپنائیں۔ کثرت سے نوافل ادا کریں اور نفلی روزے ر کھیں، ساتھ ہی ساتھ۔ ذکر الہٰی، تلاوت قرآن پاک اور دعاؤں کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمانے والا اور گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے۔
عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز استسقاء پڑھنا
————–
سوال : کیا عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز استسقاء پڑھنا جائز ہے ؟
جواب : ہاں ! عورتوں کا نماز استسقاء کے لیے گھر سے نکلنا جائز ہے، لیکن انہیں مردوں کے پیچھے رہنا چاہئیے۔ وہ مردوں سے جس قدر بھی دور ہوں گی بہتر ہو گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار ہے :
خير صفوف النساء آخرها وشرها أولها [رواه مسلم وأبو داود]
”عورتوں کی بہترین صف آخری ہے اور بدترین پہلی۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم فرمایا کہ وہ نماز عید کے لئے گھر سے نکلیں تاکہ وہ خیر و بھلائی اور مسلمانوں کی دعاء میں شریک ہو سکیں۔ لہٰذا اگر کوئی عورت مسلمانوں کی دعاء میں شرکت اور حصول خیر کے لئے نماز استسقاء کی ادائیگی کے لئے جانا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کا باپردہ ہونا ضروری ہے۔
ایک اہم بات جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب عورتیں مسجد میں نماز باجماعت کے لئے جاتی ہیں تو ان میں سے بعض خواتین صف کے پیچھے اکیلی ہی نماز پڑھنے لگ جاتی ہیں، جبکہ یہ خلاف سنت ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : خير صفوف النساء آخرها اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی بھی صفیں ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا :
لا صلاة لمنفرد خلف الصف [رواه أحمد و ابن ماجة]
”صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز نہیں ہوتی۔“
نماز مؤخر کرنے کا حکم
————–
سوال : جو شخص فجر کی نماز ظہر سے دو گھنٹے پہلے پڑھتا ہو اس کا کیا حکم ہے ؟ معلوم رہے کہ وہ اس سے قبل کا سارا عرصہ نیند میں رہا۔
جواب : بلا عذر کسی شخص کے لئے نماز کو اس کے مقررہ وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ نیند ہر شخص کے لئے عذر نہیں بن سکتی ؟ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ انسان جلد سو جائے تاکہ وہ بروقت نماز کے لئے بیدار ہو سکے۔ اسی طرح آدمی اپنے والدین، بہن، بھائیوں اور ہمسائیوں وغیرہ میں سے کسی ایک کی ڈیوٹی لگا سکتا ہے کہ وہ اسے نماز کے لئے بروقت جگا دے۔ علاوہ ازیں اسے خود بھی نماز کو اہمیت دینی چاہیے۔ وہ نماز کے ساتھ یوں دل لگائے کہ اگر وہ سو بھی رہا ہو تو وقت ہونے پر اسے نماز کا احساس ہو جائے۔ جو شخص ہمیشہ ہی فجر کی نماز چاشت کے وقت میں پڑھنے کا عادی ہے اس کے دل میں نماز کی معمولی سی بھی اہمیت نہیں ہے۔ بہرحال انسان ممکن حد تک جلد از جلد نماز ادا کرنے کا پابند ہے۔ نیند سے بیداری پر فوراً نماز پڑھنی چاہئیے۔ اگر کسی شخص نے غفلت کی ہو یا نماز بھول گیا ہو تو یاد آنے پر فوراً ادا کرے۔
رکوع اور سجدے میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ تسبیحات
————–
سوال : رکوع اور سجدے میں کم از کم کتنی تسبیحات ہیں اور زیادہ سے زیادہ کتنی ؟
جواب : رکوع میں تسبیح سبحان ربي العظيم ہے جبکہ سجدہ میں سبحان ربي الاعلى کمال کا کم از کم درجہ تین بار ہے۔ جبکہ امام کے لئے دس بار ہے، ویسے ایک بار کہنا بھی کفایت کر جائے گا۔ رکوع میں تسبیح کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثناء اور سجدہ میں تسبیح کے بعد دعا کرنا مسنون ہے۔
نماز میں وسوسے
————–
سوال : میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام فرائض بجا لاتی ہوں۔ مگر میں دوران نماز اکثر بھول جاتی ہوں، وہ یوں کہ میں دوران نماز دن بھر پیش آنے والے واقعات کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ ایسا صرف نماز کے آغاز پر ہی ہوتا ہے اور جب تک بلند آواز سے قرآن کی قرأت نہ کروں اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتی۔ اس بارے میں آپ مجھے کیا نصیحت کرنا چاہیں گے ؟
جواب : آپ جس بات کی شکایت کر رہی ہیں، اکثر نمازی حضرات بھی اسی بات کی شکایت کرتے ہیں۔ یعنی دوران نماز ان پر شیطان وسوسوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ کبھی انسان نماز سے فارغ ہو جاتا ہے، لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نماز میں کیا پڑھتا رہا ہے۔ اس کا علاج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ انسان تین بار اعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھ کر بائیں طرف پھونک مارے۔ جب انسان یوں کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس سے وسوسے جاتے رہیں گے۔ آدمی کو چاہئیے کہ نماز شروع کرتے وقت یہ یقین رکھے کہ وہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑا ہے، اس سے سرگوشیاں کر رہا ہے، اس کی تکبیر و تعظیم اور تلاوت قرآن پاک سے اور دعا کے مقامات پر دعا مانگنے سے اس کا قرب حاصل کر رہا ہے۔ انسان جب یہ شعور حاصل کر لے گا تو وہ اس کے حضور مکمل خشوع اور تعظیم کے ساتھ حاضر ہو گا۔ یہ اس کے پاس موجود خیر سے محبت کرنے والا اور اس کے عذاب سے خوف کھانے والا ہو گا۔
نماز سے سونے والا
————–
سوال : اگر نیند کی وجہ سے عشاء کی نماز فوت ہو جائے اور صبح کی نماز کے بعد یاد آئے تو کیا اسے عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھا جائے یا یاد آنے کے فورا بعد ؟
جواب : ایک صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها، ولا كفارة لها إلا ذلك [أبوداؤد فى كتاب الصلاة بإختلاف بسيط]
”جو شخص نماز سے سو جائے یا اسے نماز بھول جائے تو یاد آنے پر پڑھ لے، بس اس کا یہی کفارہ ہے۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھا :
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي [20-طه:14]
”میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ “
”اس بناء پر عشاء اور غیر عشاء کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، انسان جب بھی نیند سے بیدار ہو اور اسے نماز یاد آ جائے تو اسے فورا نماز ادا کرنی چاہئیے، اس جیسی دوسری نماز کے وقت تک مؤخر نہیں کرنا چاہئیے، چاہے وہ کراہت یا کسی اور نماز کا وقت ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں اگر اسے موجودہ نماز کے فوت ہو جانے کا ڈر ہو تو پہلے اسے ادا کرے، بعد ازاں فوت شدہ نماز ادا کرے۔ و اللہ اعلم
عورتوں کی پہلی صف کی افضلیت کی صورت
————–
سوال : اگر مسجد میں عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ حال ہو تو اس صورت میں کیا مندرجہ ذیل ارشاد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا اطلاق ہو گا ؟ خير صفوف الرجال أولها، وشرها آخرها، وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها [رواه البخاري] ”مردوں کی بہترین صف پہلی اور بدترین آخری صف ہے اور عورتوں کی بہترین صف آخری اور بدترین پہلی صف ہے۔“ یا یہ حکم زائل ہو جائے گا، اور عورتوں کی بہترین صف پہلی قرار پائے گی ؟
جواب : عورتوں کی آخری صف بہترین ہونے کا بظاہر سبب یہ ہے کہ وہ مردوں سے دور رہے، کیونکہ عورت جس قدر مردوں سے دور ہو گی اسی قدر عزت و آبرو کے اعتبار سے محفوظ ہو گی اور بےجیائی سے دور رہے گی۔ لیکن جب عورتوں کی صفیں مردوں سے دور ہوں یا کسی دیوار اور پردے کی وجہ سے مردوں سے الگ ہوں اور امام کی متابعت کے لئے لاؤڈ سپیکر پر انحصار کر رہی ہوں تو راجح امر یہ ہے کہ اس طرح عورتوں کی پہلی صف آگے ہونے اور قبلہ سے زیادہ قریب ہونے کی بناء پر افضل ہو گی۔
عورتوں کا امام بننا
————–
سوال : اگر عورتیں نماز کے لئے اکٹھی ہوں تو کیا جماعت کرا سکتی ہیں ؟
جواب : اگر عورتیں جماعت کرا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح اگر وہ جماعت نہ بھی کرائیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ؟ کیونکہ اذان اور جماعت صرف مردوں پر ہی فرض ہے۔
نماز حاجت اور نماز حفظ القرآن کی شرعی حیثیت
————–
سوال : میں نے نماز حاجت اور نماز حفظ القرآن کے بارے میں سن رکھا ہے ؟ کیا شرع میں ان کا کوئی وجود ہے ؟
جواب : یہ دونوں نمازیں غیر صحیح ہیں، نہ تو کوئی نماز حاجت ہے اور نہ نماز حفظ القرآن (شریعت میں ان کا کوئی وجود نہیں)۔ اس جیسی عبادات کے اثبات کے لیے شرعی دلیل کا ہونا ضروری ہے جو کہ ناپید ہے، بناء بریں یہ دونوں نمازیں غیرمشروع ہیں۔
نماز کا توڑنا
————–
سوال : مجھے دوران نماز یاد آیا کہ میں ناپاک (پلید) کپڑے میں نماز پڑھ رہی ہوں، کیا اس حالت میں مجھے نماز توڑ کر دوبارہ پڑھنا ہو گی ؟ نیز وہ کون سے حالات ہیں جن میں نماز توڑنا جائز ہے ؟
جواب : جس کسی کو دوران نماز معلوم ہوا کہ وہ نجاست اٹھائے ہوئے ہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی اور اگر اسے نماز مکمل ہونے پر اس کا علم ہوا تو نماز درست ہو گی اور اس کا اعادہ ضروری نہیں ہو گا۔ اگر نمازی کو دوران نماز اس بات کا علم ہو جائے اور اس نجاست کا ازالہ فوری طور پر ممکن بھی ہو تو ایسا کر کے نماز مکمل کرے۔ وہ اس لئے کہ ایک دفعہ جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران نماز اس امر سے آگاہ کیا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ اتار دئیے اور اپنی پہلی (ادا شدہ) نماز کو باطل نہیں کیا، اسی طرح اگر اسے اپنی پگڑی میں نجاست کا علم ہوا اور اس نے اسے اتار پھینکا تو گزشتہ نماز پر بنا کرے گا اور اگر اسے ازالہ نجاست کے لئے زیادہ عمل کرنا پڑے مثلاً قمیض یا شلوار اتارنے کی ضرورت ہو تو انہیں اتارنے کے بعد نئے سرے سے نماز پڑھے گا، اسی طرح اگر اسے یاد آیا کہ وہ بے وضو نماز پڑھ رہا ہے، یا دوران نماز بے وضو ہو گیا یا کسی اور وجہ سے نماز ٹوٹ گئی تو دوبارہ نماز پڑھے گا۔ جیسے ہنسنا وغیرہ۔
ولادت کی تکلیف اور نماز
————–
سوال : کیا میرے لئے ولادت کی تکلیف (دردزہ) میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب : حیض یا نفاس سے پاکیزگی کی حالت میں عورت پر نماز پڑھنا واجب ہے۔ اگر عورت نے ولادت سے ایک آدھ دن پہلے خون دیکھا تو یہ خون نفاس کے تابع ہو گا‘ لہٰذا اس وجہ سے وہ نماز نہ پڑھے اور اگر خون نہیں آیا تو چاہے عورت ولادت کی تکلیف سے دوچار ہی کیوں نہ ہو اسے نماز پڑھنا ہو گی، بالکل اس مریض کی طرح جو بیماری کو محسوس کرتے ہوئے بھی نماز ادا کرتا ہے پس تو جب تک اس کی عقل باقی ہے اس سے نماز ساقط نہ ہو گی۔
وتر اور قیام الیل
————–
سوال : میں سونے تک تھک جاتی ہوں۔ کیا میرے لئے سونے سے قبل وتر پڑھنا جائز ہے؟ کیونکہ میں نماز فجر کے وقت بیدار ہوتی ہوں اور کیا اس طرح مجھے قیام اللیل کا ثواب ملے گا؟
جواب : اگر آپ کا یہ معمول ہے کہ آپ نماز فجر کے وقت ہی بیدار ہو پاتی ہیں، تو پھر سونے سے قبل وتر پڑھ لینا افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ وہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کریں۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جتنی نماز پڑھنا چاہیں پڑھ لیں اور پھر وتر پڑھ کر سو رہیں۔ اگر آپ قبل از فجر نیند سے اٹھ جائیں اور نوافل پڑھنا چاہیں تو دو دورکعت کر کے پڑھ سکتی ہیں۔ مگر وتر دوبارہ نہ پڑھیں۔
بھول کر چھوڑی گئی نماز کا حکم
————–
سوال : ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں نے صرف تین رکعتیں پڑھی ہیں؟ کیا چوتھی رکعت پڑھ کر سجدہ سہو کروں یا دوبارہ پوری نماز پڑھنا ہو گی؟
جواب : نماز پڑھنے والے نے، اگر نماز میں سے ایک رکعت یا اس سے زیاوه ترک کر دی، پھر اسے یاد آیا کہ اس سے نماز چھوٹ گئی ہے تو اگر نمازی ابھی مصلیٰ پر ہی ہے یا مسجد میں ہی موجود ہے اور وقت بھی چار پانچ منٹ سے زیادہ نہیں گزرا، تو اس صورت میں وہ نماز مکمل کر کے سجدۂ سہو کرے اور اگر اسے تقریبا نصف گھنٹہ بعد یا مسجد سے باہر نکل کر یاد آیا تو اس صورت میں نماز دوبارہ پڑھے رکعات کے درمیان عدم تسلسل کی وجہ سے پہلی نماز کالعدم ہو گی۔
عورت کا نماز عید کے لئے جانا
————–
سوال : کیا عورت کا نماز عید کے لئے گھر سے باہر نکلنا جائز ہے؟
عیدین کی نماز کے لئے عورتوں کا گھر سے باہر جانا مشرورع ہے، عورتوں کو اس کی خاص طور پر تاکید کی جائے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”ہمیں نماز عید کے لئے جانے کا حکم دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ کنواری بچی اور حائضہ عورت کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم تھا۔ “ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر تکبیرات پڑھیں اور ان کی دعاؤں میں شرکت کریں اور اس دن کے فیوض و برکات کی امید رکھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری دوشیزاوں، باپردہ اور حائضہ عورتوں کو نماز عیدین کے مواقع پر گھروں سے باہر نکالتے۔ جہاں تک حائضہ عورتوں کا تعلق ہے تو وہ عیدگاہ سے الگ رہ کر خیر و برکت اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں۔ اس پر ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو پھر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس کی بہن اسے اپنی چادر پہنا دے۔“
واضح رہے کہ نماز عید کے لئے جاتے وقت عورتوں کو خوشبو اور فتنہ انگیز زیب و زینت سے اجتناب کرتے ہوئے انتہائی سادگی کے ساتھ مردوں سے الگ الگ رہنا چاہیئے۔
سجدہ تلاوت ہر حالت میں جائز ہے
————–
سوال : کیا یہ درست ہے کہ مسلمان کو کافر کی نظربد نہیں لگتی۔ اس کی دلیل کیا ہے؟ کیا میں سجدہ تلاوت عام حالات میں کر سکتی ہوں یعنی جسم اور سر ڈھانپے بغیر ہی؟
جواب : یہ بات درست نہیں ہے بلکہ مسلمان کو، مسلمان کی طرح کافر کی نظربد بھی لگ سکتی ہے۔ کیونکہ نظربد کا لگنا برحق ہے۔
کسی بھی حالت میں سجدۂ تلاوت کرنا جائز ہے، اگر سر وغیرہ ننگا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ راجح مسلک کی رو سے سجدۂ تلاوت نماز کا حکم نہیں رکھتا۔
چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضاء
————–
سوال : میں قبل ازیں نماز نہیں پڑھتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرماتے ہوئے ہدایت نصیب فرمائی تو مجھے فوت شدہ نمازیں ادا کرنے کی حرص ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مجھے گزشتہ کئی سالوں کی فوت شدہ نمازوں کی قضاء دینی لازم ہے؟
جواب : ایک شخص جب کئی سال تک نمازوں کو ترک کرتا ہے، پھر توبہ کر کے مکمل نمازی بن جاتا ہے تو ایسے شخص پر گزشتہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء واجب نہیں ہے؟ کیونکہ اگر ایسی شرط عائد کر دی جائے تو بہت سارے توبہ کرنے والوں کو یہ کام (سیدھی راہ سے) متنفر کرنے والا ہو گا۔ توبہ کرنے والے کو آئندہ تمام نمازوں کی محافظت کرنے، کثرت سے نوافل ادا کرنے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے، نیکی کا کام کرنے اور اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے اور اس سے ڈرتے رہے کی تلقین کی جانی چاہئیے۔
عورت کا دوران تلاوت کلام پاک سر ننگا ہونا
————–
سوال : اس مسلمان عورت کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے جو نماز پڑھتی ہے، روزے رکھتی ہے اور تلاوت کلام پاک کرتی ہے مگر سر نہیں ڈھانپتی؟
جواب : تلاوت کلام پاک کے لئے سر ڈھانپنا شرط نہیں ہے، البتہ جن اعضاء کا ڈھانپنا ضروری ہے وہ اعضاء ڈھانپے بغیر نماز پڑھناجائز نہیں ہے۔ آزاد اور بالغ عورت دوران نماز چہرے کے علاوہ مکمل طور پر واجب الستر ہے، حالت نماز میں چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں۔ ہاں آس پاس غیر محرم مردوں کی موجود گی میں چہرہ ڈھانپنا ضروری ہے۔ عورت کے لئے خاوند اور محرم رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے سامنے چہرہ ننگا کرنا جائز نہیں۔
کفارہ سیئات کا مطلب
————–
سوال : میری بیوی اپنے پہلے بچے کی پیدائش تک نماز پڑھا کرتی تھی، پھر اس بناء پر سستی کا مظاہرہ کرنے لگی کہ ولادت کی تکلیف کی وجہ سے عورت سے تمام گناہ ساقط ہو جاتے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب : یہ درست نہیں ہے، عورت بھی دوسرے انسانوں کی طرح ہے اس پر اگر کوئی مصبت آئے وہ اس پر صبر کرے اور ثواب کی امید رکھے تو یہ بھی ان آلام و مصائب پر اجر و ثواب کی حقدار ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کم تر تکلیف یعنی کانٹا لگ جانے کو بھی گناہوں کا کفارہ فرمایا ہے۔
یہ بات اچھی طرح جان لیجئیے کہ جن مصائب کا سامنا کسی شخص کو کرنا پڑتا ہے اگر وہ ان پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی آرزو رکھے، تو وہ یقیناً اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہو گا اور وہ مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔ مصائب و آلام بہرحال گناہوں کا کفارہ ہیں، اگر انسان اس دوران صبر سے کام لے تو وہ اس کے بدلے مزید ثواب کا حقدار ہو گا۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عورت کو عمل ولادت کے وقت درد ناک اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ اذیت اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ صبر کا دامن تھامے رکھے اور اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی خواستگار ہو تو وہ مزید ثواب اور حسنات کی حقدار ہو گی۔ و اللہ اعلم
يوم القوم اقراهم کا حکم عورتوں پر لاگو نہیں ہوتا
————–
سوال : میں کلیہ شریعہ (شرعی کالج) میں زیر تعلیم ہونے کی بناء پر اپنے خاوند سے فقہ اور تعلیمی اعتبار سے فائق ہوں جبکہ میرا خاوند آدھا ان پڑھ ہے۔ کیا اس اعتبار سے میں اس کی امامت کرا سکتی ہوں ؟
جواب : عورت مرد کی امام نہیں بن سکتی خواہ وہ اس کا خاوند ہو، بیٹا ہو یا باپ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة [رواه البخاري فى كتاب المغازى]
”وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کر دیا ہو۔“
عورت اگر مرد سے زیادہ پڑھی لکھی ہو تو بھی وہ منصب امامت کی اہل نہیں۔ باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد:
يؤم القوم أقرأهم لكتاب الله [رواه مسلم]
”لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے (یعنی لوگوں کو وہ شخص نماز پڑھائے) جو کتاب اللہ کا زیادہ عالم ہو۔“
تو عورت مرد کے ساتھ اس خطاب کی اہل نہیں۔ ارشار باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ [49-الحجرات:11]
”اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا تمسخر نہ اڑائے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا تمسخر اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا: یعنی مرد اور عورت۔ اس بناء پر عورت يوم القوم اقرئهم لكتاب الله کے عموم میں داخل ہی نہیں۔
ادائیگی نماز کے لئے لباس کا حکم
————–
سوال : ایک عورت نماز پڑھنے کے لئے ایسا کپڑا زیب تن کرتی ہے جو کہ مردوں کا شعار ہے۔ کیا ایسے لباس میں اس کی نماز جائز ہے؟ اور کیا یہ عمل مردوں سے مشابہت کے ضمن میں آتا ہے؟
جواب : ایسا کپڑا جو کہ مردوں کا شعار ہو عورت کے لئے ہر حالت میں اس کا پہننا حرام ہے، چاہے وہ نماز کی حالت میں پہنے یا عام حالات میں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، لہٰذا کسی بھی عورت کے لئے مردوں کا مخصوس لباس پہننا جائز نہیں اور نہ کسی مرد کے لئے عورتوں کا مخصوص لباس پہننا جائز ہے۔
لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ خصوصیت کا مفہوم کیا ہے؟ خصوصیت صرف رنگ میں نہیں، بلکہ رنگ اور صفت دونوں کے مجموے کا نام ہے۔ لہٰذا عورت کے لئے سفید رنگ کا لباس زیب تن کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کی تراش خراش (بناوٹ) مردوں کے لباس جیسی نہ ہو۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ مردوں کے ساتھ مخصوس لباس عورتوں پر حرام ہے تو ایسے لباس میں بعض اہل علم کے نزدیک عورت کی نماز درست نہیں ہے، یہ علماء وہ ہیں جو ستر میں اس امر کی شرط لگاتے ہیں کہ وہ ساتر مباح بھی ہو۔
دراصل یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض علماء پردہ کرنے والے (ساتر) لباس میں اس کے جائز ہونے کی شرط لگاتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔ اس کے جائز ہونے کی شرط لگانے والے علماء کی دلیل یہ ہے کہ واجب الستر اعضاء کا چھپانا شرائط نماز میں سے ہے اور ضروری ہے کہ ساتر لباس وہ ہو جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہو اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت نہ دی ہو تو وہ شرعاً ساتر نہیں ہو گا۔
اور جو علماء گناہ کے باوجود اس لباس میں نماز کے صحیح ہونے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ ستر تو بہرحال حاصل ہو چکا ہے۔ (لہٰذا اس میں نماز درست ہو گی) جبکہ گناہ اس معاملے سے خارج ہے جو کہ نماز کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بہرحال حرام لباس زیب تن کر کے نماز پڑھنے والا اس خطرے سے دوچار رہے گا کہ کہیں اس کی نماز رد نہ کر دی جائے اور وہ شرف قبولیت سے محروم رہے۔