ظہر سے پہلے چار رکعت
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ظہر سے پہلے پڑھی جانے والی چار رکعتوں کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔”
(ابو داؤد، ۰۷۲۱. قال البانی حسن دون قولہ لیس فیھن تسلیم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے اشراق کی چار رکعت نماز پڑھی اور ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھیں اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۹۴۳۲.)
سیدنا عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے اور فرماتے:
"یقیناً اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ ان اوقات میں نیک عمل بھیجوں۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۲۶۹۲.)
ظہر کے بعد چار رکعت
ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت کی حفاظت کی اس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔”
(أبو داود: التطوع، باب: الأربع قبل الظہر وبعدہا: ۹۶۲۱.)
عصر سے پہلے چار رکعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص عصر سے پہلے چار رکعات (سنت) پڑھے، اللہ اس پر رحمت کرے۔”
(ترمذی، ۰۳۴ وابو داود، ۱۷۲۱۔ اسے ابن خزیمہ، ابن حبان اور نووی نے صحیح کہا۔)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے اور دو رکعت کے بعد تشہد اور دعا پڑھ کر سلام پھیرتے تھے۔
(ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی الاربع قبل العصر،: ۹۲۴، ترمذی نے حسن کہا۔)
مغرب سے پہلے دو رکعتیں
سیدنا عبد اللہ المزنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مغرب کی (فرض) نماز سے پہلے نماز پڑھو،” آپ نے دو بار فرمایا اور تیسری بار کہا:
"جس کا دل چاہے،” یہ اس لیے فرمایا کہ آپ ناپسند کرتے تھے کہ لوگ اس کو سنتِ مؤکدہ بنا لیں۔
(بخاری: أبواب التہجد، باب: الصلاۃ قبل المغرب: ۳۸۱۱.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"مدینہ میں مؤذن مغرب کی اذان کہتا، ہم سب ستونوں کی طرف لپکتے اور دو رکعتیں پڑھتے۔ لوگ اس کثرت سے دو رکعتیں پڑھتے کہ اجنبی یہ گمان کرتا کہ مغرب کی جماعت ہو چکی ہے۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتین قبل صلاۃ المغرب، ۷۳۸.)
مرثد بن عبد اللہ رحمہ اللہ، سیدنا عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا:
"کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سیدنا ابو تمیم رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھتے ہیں؟”
سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
"ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پڑھتے تھے۔”
انہوں نے پوچھا: "اب کیوں نہیں پڑھتے؟”
کہنے لگے: "مصروفیت۔”
(بخاری، التھجد، باب الصلاۃ قبل المغرب، ۴۸۱۱.)
جمعہ کے بعد کی سنتیں
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہو تو چار رکعات ادا کرو۔”
(مسلم، الجمعۃ، باب الصلاۃ بعد الجمعۃ، ۱۸۸.)
معلوم ہوا کہ جمعہ کے بعد چار رکعات سنتیں پڑھنی چاہئیں اور اگر کوئی دو رکعتیں بھی پڑھ لے تو جائز ہوگا۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جمعہ کے بعد کچھ نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ اپنے گھر آتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر فرماتے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔”
(بخاری، الجمعۃ، باب الصلاۃ بعد الجمعۃ و قبلھا، ۷۳۹، ومسلم، ۲۸۸.)
بعض علماء نے یہ تطبیق دی ہے کہ:
◈ مسجد میں چار سنتیں (دو، دو کر کے) پڑھے
◈ گھر میں آ کر پڑھے تو دو سنتیں پڑھے
(مرعاۃ المفاتیح.)
فجر کی سنتوں کی فضیلت
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فجر کی دو سنتیں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے، اس سے بہتر ہیں اور مجھے فجر کی دو رکعت (سنتیں) ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔”
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر، ۵۲۷.)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل (سنن) میں سے کسی چیز پر اتنی محافظت اور مداومت نہیں کرتے تھے جس قدر فجر کی دو سنتوں پر کرتے تھے۔”
(بخاری، التھجد، باب تعاھد رکعتی الفجر، ۹۶۱۱، مسلم، ۴۹[ ۴۲۷].)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز زائد دی ہے یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔ یہ نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۱۴۱۱.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
"فجر سے پہلے کی دو رکعتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑا کرتے تھے چاہے تندرست ہوں یا بیمار، سفر میں ہوں یا حضر میں۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۵۰۷۲.)
فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو لیٹنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو سنتیں پڑھتے تو:
"دائیں پہلو پر لیٹتے تھے۔”
(بخاری، الاذان، باب من انتظر الاقامۃ، ۶۲۶، مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی فی اللیل ۶۳۷.)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"سلف میں سے بعض مسجد کی بجائے گھر میں دائیں پہلو لیٹنا مستحب جانتے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر نہیں ملتا کہ آپ مسجد میں دائیں پہلو لیٹتے تھے۔”
(فتح الباری.)