نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق 8 روایات کی تحقیق
فتاویٰ علمیہ – جلد 1، کتاب الصلوٰۃ، صفحہ 313

نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟

احادیثِ مبارکہ کی اسنادی حیثیت کا تفصیلی جائزہ

نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ زیرِ نظر چند روایات کی اسنادی حیثیت، ان کی تخریج، اور
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
کی تفسیر کے ساتھ ساتھ سینے پر ہاتھ باندھنے کی احادیث کی تحقیق درکار ہے۔

➊ روایت: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ

متن:
عن وائل بن حجر قال; رايت النبي صلي الله عليه وسلم يضع يمينه على شماله في الصلاة تحت السرة
(مصنف ابن ابی شیبہ1/390)

تحقیق:
مصنف ابن ابی شیبہ کے مطبوعہ نسخے (طبع العزیزیہ، حیدر آباد، 1386ھ) میں "تحت السرة” کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
استاد الشیخ ابو القاسم محب اللہ شاہ الراشدی السندھی رحمہ اللہ کے قلمی نسخے میں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں۔
انور شاہ کاشمیری دیوبندی کے مطابق، مصنف کے تین نسخوں میں "تحت السرة” کے الفاظ موجود نہیں۔
(فیض الباری ج2 ص267)
بیروت کا مطبوعہ نسخہ
(ج1 ص342، حدیث 3938)
بھی انہی الفاظ کے بغیر ہے۔
امام وکیع کی سند سے امام احمد نے بھی یہی روایت بغیر "تحت السرة” کے نقل کی ہے۔
(مسند احمد ج4 ص316 حدیث 19051)
دیوبندی ناشرین نے "تحت السرة” کا بے اصل اضافہ کر کے روایت نقل کی، جس پر اعتراض بجا ہے۔
قاسم بن قطلوبغا (802–979ھ) نے یہ اضافہ پہلے کیا تھا، جسے کذاب قرار دیا گیا:
قاسم بن قطلوبغا كذاباً
(الضوء اللامع للسخاوی ج6 ص186)
دیوبندی اکابرین کے جھوٹ کے اعترافات کے حوالے:
محمد قاسم نانوتوی:
"میں سخت نادم ہوا… اور صریح جھوٹ میں نے اسی روز بولا تھا”
(ارواح ثلاثہ ص390، معارف الاكابر ص260)
رشید احمد گنگوہی:
"جھوٹا ہوں”
(مکاتب رشیدیہ ص10، فضائل صدقات ص558)

➋ روایت: عن علی رضی اللہ عنہ

(ابن ابی شیبہ ج1 ص391، مسند احمد ج1 ص110، ابو داؤد 756)
تحقیق:
اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی الواسطی ہے، جو جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
انور شاہ کاشمیری:
الواسطي وهو متفق على ضعفه
(العرف الشذی ج1 ص76، سطر 28)

➌ روایت: عن انس رضی اللہ عنہ

(الجوہر النقی 2/32 بحوالہ ابن حزم المحلیٰ 4/113)
تحقیق:
المحلیٰ میں بلا سند ہے۔
الخلافات للبیہقی (قلمی ص37) میں سند کے ساتھ موجود ہے:
…حدثنا سعيد بن زربي عن ثابت عن انس…
سعید بن زربی کو بیہقی نے "ولیس بالقوی” کہا اور تقریب التہذیب میں "منکر الحدیث” درج ہے۔
لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔

➍ روایت: عن أبی هریرة رضی اللہ عنہ

(الجوهر النقی 2/32 بحوالہ ابن حزم)
تحقیق:
سنداً صحیح ہے، لیکن یہ تابعی (ابو مجلز) کا قول ہے، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث۔
تابعی کا قول، سنت صحیحہ کے مقابلے میں قابل استدلال نہیں۔

➎ روایت: عن إبراهیم

(ابن ابی شیبه1/390)
تحقیق:
صرف تابعی ابراہیم النخعی کا قول ہے، نہ کہ مرفوع حدیث۔
یہ رائے سنتِ نبوی کے مقابلے میں قابل حجت نہیں۔

➏ روایت: "يَضَعُ بَاطِنَ كَفِّ يَمِينِهِ…”

(ابن ابی شیبه1/391)
تحقیق:
یہ بھی تابعی قول ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مرفوع۔

➐ روایت: مسند زید اور محلیٰ میں روایت

(مسند زید ص204، المحلیٰ ج4 ص113 مسئلہ 448)
تحقیق:
مسند زید کا مرکزی راوی: ابو خالد الواسطی (عمرو بن خالد) ہے، جو کذاب ہے۔
(میزان الاعتدال 3/257)
یہ پوری کتاب موضوع ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی بلا سند اور "تحت السرة” کے الفاظ کے بغیر ہے۔

➑ آیت کی تفسیر: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

متعلقہ روایت:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
وضع يده اليمنى على وسط ساعده اليسرى ثم وضعهما على صدره
"یعنی انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی کلائی کے درمیان اپنے سینے پر رکھا۔
(التاریخ الکبیر للبخاری ج6 ص437، السنن الکبری للبیہقی ج2 ص30)
تحقیق:
راوی عاصم الجحدری کے والد العجاج کے حالات نامعلوم، لہٰذا سند ضعیف ہے۔
بعض روایات میں "عن ابیہ” کا واسطہ گر گیا ہے۔
التمہید
(ج9 ص217)
سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت میں راوی الخضر بن داؤد ہیں، جن کے حالات نامعلوم ہیں۔

➒ سینے پر ہاتھ باندھنے کی صحیح احادیث

❀ قبیصہ بن ہلب کی روایت
(مسند احمد ج5 ص226، حدیث 22313)
سینے پر ہاتھ باندھنے کی قوی روایت ہے۔

❀ صحیح بخاری کی حدیث
(حدیث 740)
على ظهر كفه اليسرى والرسغ
عمومی طور پر سینے پر ہاتھ باندھنے کی تائید۔

❀ ابو داؤد کی حدیث
(حدیث 727)
"ذراع” والی حدیث بھی مؤید ہے۔
سند بھی صحیح ہے۔

اضافی مطالعہ

مزید تفصیل کے لیے شیخ کی تصنیف "نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام” کا مطالعہ مفید ہوگا۔
(شہادت: جولائی 2002)

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1