نماز میں مرد و عورت کے لیے یکساں طریقہ

حدیث نبوی ﷺ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’صلوا كما رأيتموني أصلي‘‘
’’نماز اسی طرح پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘
(بخاری: ۱۳۶)

وضاحت:

اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں، نماز پڑھنے کا جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا، وہی طریقہ تمام مسلمانوں—چاہے مرد ہوں یا عورتیں—کے لیے لازم ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے جو عملی نمونہ پیش فرمایا، اس میں مرد و عورت کے لیے کسی قسم کا فرق بیان نہیں کیا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مرد اور ہر عورت کو وہی انداز، وہی طرز، اور وہی حرکات و اذکار اپنانے چاہئیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے۔

خودساختہ اختلافات کی تردید:

بعض لوگوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ:

◈ عورتیں صرف کندھوں تک ہاتھ اٹھائیں جبکہ مرد کانوں تک۔
◈ عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیرِ ناف۔
◈ عورتیں سجدہ کرتے وقت جسم کو زمین سے زیادہ سمیٹیں اور مرد پھیلائیں۔

یہ تمام تفریق اور فرق دینی تعلیمات میں مداخلت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔

نماز کا ایک ہی طریقہ:

تکبیرِ تحریمہ سے لے کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے تک:

عورتوں اور مردوں دونوں کی نماز کا ہیئت و صورت ایک جیسی ہے۔

نماز کے تمام اجزاء میں کوئی تفریق نہیں:

◈ قیام (کھڑا ہونا)
◈ رکوع (جھکنا)
◈ قومہ (رکوع کے بعد کھڑا ہونا)
◈ سجدہ
◈ جلسۂ استراحت (دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا)
◈ قعدہ (آخری تشہد میں بیٹھنا)

اور ہر مقام پر پڑھی جانے والی دعائیں — سب کچھ مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔

نتیجہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے طریقے میں مرد اور عورت کے درمیان کسی قسم کا فرق بیان نہیں کیا۔

لہٰذا، سنتِ نبوی کے مطابق، نماز کی ادائیگی میں مرد و عورت دونوں کو ایک ہی انداز اپنانا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1