نماز میں لباس کی شرعی حدود اور پاکیزگی کے اصول

نمازی کا لباس

کپڑوں کا پاک ہونا

نماز کے لیے ضروری ہے کہ نمازی کے لباس، جسم اور جائے نماز پر کسی قسم کی نجاست نہ ہو۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
"کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کپڑے میں نماز ادا فرما لیتے تھے جس میں مباشرت کرتے تھے؟”
انہوں نے فرمایا:
"اگر اس میں گندگی نہ لگتی، تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) نماز ادا فرما لیتے۔”
(ابو داؤد، الصلاۃ فی الثوب الذی، ۶۶۳، ابن ماجہ، ۰۴۵)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
"کیا میں اس کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہوں جس میں میں اپنی بیوی سے جماع کرتا ہوں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہاں، اور اگر تم اس میں کوئی گندگی دیکھو تو اسے دھو لو۔”
(ابن ماجہ، الطہارہ وسننھا، الصلاۃ فی الثوب الذی یجامع فیہ، ۲۴۵)

✿ نتیجہ: نمازی کا لباس پاک ہونا واجب ہے۔

مرد کا لباس

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے ننگے ہوں۔”
(بخاری: ۹۵۳، مسلم: ۶۱۵)

✿ وضاحت: نماز کے دوران سر ڈھانپنا واجب نہیں، کیونکہ اگر ہوتا تو کندھوں کے ساتھ سر کا بھی ذکر آتا۔ البتہ یہ مستحب ہے اور ترغیب دی جا سکتی ہے، مگر نہ ڈھانپنے پر ملامت نہ کی جائے۔

احرام کی حالت میں جو افراد کندھے کھول کر نماز ادا کرتے ہیں جبکہ وہ کندھے ڈھانپنے پر قادر بھی ہوتے ہیں، تو ان کی نماز درست نہیں ہو گی۔

ران کا پردہ

سیدنا جرھد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میری ران ننگی تھی، آپ نے فرمایا:
"ران کو ڈھکو، بیشک ران شرم گاہ ہے۔”
(ترمذی، باب: ما جاء أن الفخذ عورۃ: ۵۹۷۲)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ران ستر ہے۔”
(ترمذی، ان الفخذ عورۃ: ۸۹۷۲)

ایک کپڑے میں نماز کا طریقہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر نماز پڑھتے ہوئے ایک ہی کپڑا ہو اور وہ کشادہ ہو تو التحاف کرو یعنی جسم پر لپیٹ کر کندھے ڈھکو، اور اگر تنگ ہو تو صرف تہبند بناؤ۔”
(بخاری: ۱۶۳، مسلم: ۸۱۵)

سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک ہی کپڑے میں لپٹے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا۔”
(بخاری: ۴۵۳، مسلم: ۷۱۵)

سیدنا سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور اپنے تہبند گردن پر باندھے رکھتے تھے، عورتوں سے کہا گیا کہ جب تک مرد بیٹھ نہ جائیں، سجدے سے سر نہ اٹھاؤ۔”
(بخاری: ۲۶۳، مسلم: ۱۴۴)

سنت کی پیروی

محمد بن المنکدر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا:
وہ ایک کپڑے میں لپٹے نماز پڑھ رہے تھے، چادر ایک طرف رکھی ہوئی تھی۔
ہم نے پوچھا: "چادر موجود ہے، پھر بھی آپ ایسے نماز پڑھ رہے ہیں؟”
انہوں نے فرمایا:
"میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، تاکہ تم جیسے جاہل دیکھ لیں۔”
(بخاری: ۰۷۳، مسلم: ۸۰۰۳)

زائد کپڑے موجود ہوں تو کیا کیا جائے؟

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ایک شخص نے پوچھا: "ایک کپڑے میں نماز کیسی ہے؟”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں؟”
بعد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہی سوال کیا گیا، انہوں نے فرمایا:
"جب اللہ نے تمہیں وسعت دی ہے تو تم بھی وسعت اختیار کرو۔”
(بخاری: ۵۶۳، مسلم: ۵۱۵)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں کپڑے پہن لو، کیونکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للألبانی: ۹۶۳۱)

دارالافتاء اللجنة الدائمة (سعودیہ) کے مطابق:
مردوں کے لیے نماز میں سر ڈھانپنا واجب نہیں، لیکن زینت کے طور پر مستحسن ہے:
(یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ)
"اے آدم کے بیٹو! ہر نماز کے وقت اپنی زینت (یعنی لباس و پاکیزگی) اختیار کیا کرو۔”
(الأعراف: ۱۳)

عورت کا لباس

نماز فجر میں صحابیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چادروں میں لپٹی نماز ادا کرتی تھیں۔
(بخاری: ۲۷۳، مسلم: ۵۴۶)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی۔”
(ابو داؤد: ۱۴۶، اسے ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا)

✿ نتیجہ: عورت سراپا پردہ ہے، اگر وہ پنڈلی، بازو یا سر کھول کر نماز پڑھے گی، تو اس کی نماز درست نہ ہو گی۔

مفتی عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"نماز میں مرد و عورت کا لباس ستر کے مطابق ہونا واجب ہے۔ اگر لباس باریک ہو اور ستر پوشی نہ ہو تو نماز باطل ہے۔”
(فتاوی اسلامیہ، اول: ۷۸۳)

چٹائی پر نماز پڑھنا

ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔”
(بخاری: ۹۷۳، مسلم: ۳۱۵)

کپڑے پر سجدہ کرنا

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت:
"گرمی کے دنوں میں جب زمین گرم ہوتی، تو ہم کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرتے تھے۔”
(بخاری: ۵۸۳، مسلم: ۰۲۶)

جوتے اور موزے پہن کر نماز

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ننگے پاؤں اور کبھی جوتے پہن کر نماز ادا فرماتے تھے۔
(ابو داؤد: ۳۵۶، ابن ماجہ: ۸۳۰۱، طحاوی نے متواتر کہا)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہودیوں کی مخالفت کرو، وہ جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے۔”
(ابو داؤد: ۲۵۶، حاکم و ذہبی نے صحیح کہا)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتے اتار کر نماز ادا کی، صحابہ نے بھی ایسا کیا۔
نماز کے بعد فرمایا:
"میرے پاس جبریل آئے اور بتایا کہ جوتوں میں گندگی ہے، لہٰذا مسجد میں آؤ تو جوتے اچھی طرح دیکھ لو، اگر گندگی ہو تو زمین پر رگڑ کر پاک کرو، پھر ان میں نماز ادا کرو۔”
(ابو داؤد: ۰۵۶، حاکم، ذہبی اور نووی نے صحیح کہا)

✿ وضاحت:
آج مساجد میں قالین اور صفیں بچھ چکی ہیں، جوتوں کے تلوے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی جوتے پہن کر نماز پڑھنا چاہے تو طہارت کا مکمل اہتمام کرے، ورنہ جوتے اتار کر نماز پڑھے۔

✿ اگر کسی کو نماز کے بعد نجاست کا علم ہوا تو اس کی نماز درست ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز ادا کرو تو جوتے دائیں یا بائیں نہ رکھو، بلکہ اپنے قدموں کے درمیان رکھو، کیونکہ تمہارا بایاں دوسرے نمازی کا دایاں ہو گا۔”
(ابو داؤد: ۴۵۶، ۵۵۶، حاکم، ذہبی اور نووی نے صحیح کہا)

بال اور کپڑے سمیٹنا

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا اور بال و کپڑے سمیٹنے سے منع کیا گیا۔”
(مسلم: ۰۹۴)

انہوں نے سیدنا عبداللہ بن حارث کو بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھتے دیکھا، جو کھول دیا۔
بعد ازاں فرمایا:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اس طرح نماز پڑھنے والے کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کے ہاتھ بندھے ہوں۔”
(مسلم: ۲۹۴)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1