احکامِ قبلہ
قرآن مجید میں قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ)
(البقرۃ: 144)
’’اپنا چہرہ (نماز کے لیے) مسجد حرام کی طرف پھیر لو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کا عمل: فرض نماز کے وقت قبلہ رُخ ہونا
جب رسول اللہ ﷺ فرض نماز ادا فرمانا چاہتے، تو سواری سے اتر کر قبلہ رُخ کھڑے ہو جاتے۔
(بخاری، تقصیر الصلاۃ، باب ینزل للمکتوبۃ 1099۔ مسلم: 504)
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد: قبلہ کی سمت کی وسعت
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"مشرق اور مغرب کے درمیان (جنوب کی طرف) تمام سمت قبلہ ہے۔”
(ترمذی، الصلوۃ، باب ما جاء ان ما بین المشرق والمغرب قبلۃ 342، امام ترمذی نے حسن صحیح کہا۔)
مدینہ منورہ سے کعبہ جنوب کی طرف ہے، اس لیے آپ ﷺ نے مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ کی تعیین فرمائی۔ اسی اصول پر پاکستان و ہندوستان میں شمال اور جنوب کے درمیان مغرب کی سمت تمام قبلہ ہے۔ اس سہولت کی وجہ سے امت پر تنگی نہ ہو۔
تاہم جب قبلہ کی درست سمت کا یقینی علم ہو جائے تو قبلہ رُخ ہونا لازم ہے۔
نفل نماز سواری پر
نبی رحمت ﷺ سفر کے دوران فرض نمازوں کے علاوہ رات کی نفل نماز اپنی سواری پر ادا فرماتے تھے۔ جس طرف سواری کا رخ ہوتا، آپ ﷺ اسی طرف چہرہ کر کے اشاروں سے نماز ادا فرماتے، حتیٰ کہ وتر بھی سواری پر ہی ادا فرماتے۔
(بخاری، الوتر، باب الوتر فی السفر، 1000۔ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت، 700)
کبھی آپ ﷺ یہ بھی کرتے کہ نوافل شروع کرنے سے پہلے اونٹنی کا رخ قبلہ کی طرف کرتے، پھر تکبیرِ تحریمہ کہتے، اس کے بعد جس طرف سواری جاتی، آپ ﷺ نوافل جاری رکھتے۔
(ابو داؤد، صلوۃ السفر، باب التطوع علی الراحلۃ والوتر 1225۔ ابن سکن نے صحیح اور منذری نے حسن کہا۔)
اس حالت میں آپ ﷺ رکوع اور سجدہ سر کے اشارے سے کرتے، لیکن سجدے کے لیے رکوع کی نسبت سر کو زیادہ جھکاتے۔
(ترمذی، الصلوۃ، باب ما جاء فی الصلوۃ علی الدابۃ حیث ما توجھت بہ 351۔ امام ترمذی نے حسن صحیح کہا۔)
قبروں کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنا
اگر قبلہ کی سمت میں قبر ہو، تو وہاں سے ہٹ کر نماز پڑھنی چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’قبروں کی جانب منہ کر کے نماز ادا نہ کرو اور نہ قبروں پر بیٹھو۔‘‘
(مسلم، الجنائز، باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیہ۔ 972)
نماز کی حالت میں قبلہ کی درست سمت معلوم ہونے پر رخ بدلنا
اگر کوئی شخص نماز کے دوران غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہو اور دورانِ نماز اسے قبلہ کی درست سمت کا علم ہو جائے، تو اُسے نماز ہی میں اپنا رخ قبلہ کی طرف موڑ لینا چاہیے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی، پھر اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (کعبہ کی طرف) نماز پڑھی، پھر انصار کے کچھ لوگوں کو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف پڑھتے دیکھا تو کہا:
"میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔”
یہ سن کر وہ لوگ نماز ہی میں قبلہ کی طرف گھوم گئے۔
(بخاری، الصلاۃ، باب التوجہ نحو القبلۃ: 399)