جو فاتحہ اور قرآن پڑھنے سے عاجز ہو وہ کیا کرے
➊ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز سکھائی تو فرمایا: ”اگر تمہیں قرآن (کا کچھ حصہ ) یاد ہے تو پڑھو۔ وإلا فاحمد الله وكبره وهلله ثم اركع ورنہ الحمد لله ، الله اكبر اور لا إله إلا الله (حسب توفیق) کہہ کر رکوع کر لو۔ “
[صحيح: صحيح ترمذي: 247 ، المشكاة: 804 ، إرواء الغليل: 321/1 ، صحيح أبو داود: 803 ، كتاب الصلاة: باب صلاة من لا يقيم صلبه….، أبو داود: 858 ، نسائي: 193/2 ، ترمذي: 302 ، أحمد: 340/4 ، دارمي: 305/1 ، حاكم: 242/1 ، بيهقي: 102/2]
➋ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا بلا شبہ مجھے قرآن سے کچھ بھی یاد نہیں ہے لٰہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وہ چیز سکھا دیجیے جو مجھے کفایت کر جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو: سبحان الله ، الحمد الله ، لا إله إلا الله ، والله أكبر ، ولا حول ولا قوة إلا بالله
[حسن: صحيح أبو داود: 742 ، كتاب الصلاة: باب ما يجرى الأمى والأعجمي من القراءة ، أبو داود: 832 ، نسائي: 143/2 ، أحمد: 353/4 ، حميدي: 717 ، عبد الرزاق: 2747 ، ابن خزيمة: 544 ، دار قطني: 314/1 ، شرح السنة: 224/2]
یاد رہے کہ اس واقعہ کو تمام اوقات (یعنی ہمیشہ ) کے لیے جواز نہیں بنانا چاہیے کیونکہ جو شخص ان کلمات کو سیکھنے کی طاقت رکھتا ہے لا محالہ وہ فاتحہ سکھنے کی بھی طاقت رکھتا ہو گا چنانچہ اس کی تاویل یہ ہو گی کہ (اس شخص نے کہا) ”میں اس وقت کچھ بھی قرآن سیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا اور بے شک مجھ پر نماز کا وقت آ چکا ہے۔“ پس جب وہ اس نماز سے فارغ ہو گا تو اس پر (اگلی نماز کے لیے فاتحہ ) سیکھنا لازم ہو گا جیسا کہ شارح المصابیح نے بھی یہی بیان کیا ہے۔
[تفصيل كے ليے ملاحظه هو: نيل الأوطار: 49/2]