سینے پر ہاتھ باندھنے کے ناقابل تردید دلائل
ذیل میں نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے دلائل اور ان کے شواہد مفصل انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ تمام احادیث کے اصل عربی الفاظ اور حوالہ جات جوں کے توں درج ہیں، تاکہ مسئلہ اپنی اصل صورت میں واضح ہوسکے۔
دلیل نمبر ۱: حدیثِ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد”
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد) بازو پر رکھا۔
(صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴، صحیح ابن حبان ۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵، مسند احمد ۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵، سنن نسائی ۱۲۶/۲ ح ۸۹۰، سنن ابی داؤد مع بذل المجہود ۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
سند کی تحقیق
- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ: صحابیٔ جلیل
(تقریب التہذیب : ۷۳۹۳) - کلیب: صدوق
(تقریب التہذیب: ۵۶۶۰) - عاصم بن کلیب: صدوق، رمی بالارجاء (یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں)
(تقریب التہذیب : ۳۰۷۵) - زائدہ بن قدامہ: ثقۃ ثبت صاحب سنۃ
(تقریب التہذیب: ۶۹۸۲) - ابوالولید ہشام بن عبدالملک الطیالسی: ثقۃ ثبت
(تقریب التہذیب: ۷۳۰۱) - الحسن بن علی الحلوانی: ثقۃ حافظ لہ تصانیف
(تقریب التہذیب: ۱۲۶۲)
ان تمام رواۃ کی توثیق سے معلوم ہوا کہ یہ سند صحیح ہے۔ نیموی نے بھی آثار السنن (ص۸۳) میں کہا:
"واسنادہ صحیح”
تشریح
-
- "الکف والرسغ والساعد" اصل میں ذراع (حدیث بخاری: ۷۴۰) کی تشریح ہے۔
المعجم الوسیط (۴۳۰/۱) میں ہے:
"السَّاعِدُ: مَا بَیْنَ الْمِرْفَقِ الْکَفِّ مِنْ أَعْلٰی”
- یعنی ساعد کہنی اور ہتھیلی کے درمیان اوپر کی طرف کے حصے کو کہتے ہیں۔
تنبیہ
- "السّاعد” سے پوری السّاعد مراد ہے، اس کا کچھ حصہ مراد نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
"لأن العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص”
(فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح۲۹۵۱)
جب تک کوئی دلیل تخصیص نہ کرے، عمومِ لفظ ہی معتبر ہوتا ہے۔ - لہٰذا پوری السّاعد پر ہاتھ رکھنا لازم ہوگا۔ تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو وہ خودبخود سینے پر آجاتے ہیں۔
دلیل نمبر ۲
قال الامام احمد فی مسندہ: "ثنا یحیی بن سعید عن سفیان حدثنی سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن ابیہ قال: رایت النبی ﷺ ینصرف عن یمینہ وعن شمالہ ورایتہ یضع ھذہ علی صدرہ وصف یحیی الیمنی علی الیسریٰ فوق المفصل”
ہلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو (نماز سے فارغ ہوکر) دائیں اور بائیں (دونوں) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ یحیی (القطان راوی) نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر (عملاً) بتایا۔
(مسند احمد ۲۲۶/۵ح۲۲۳۱۳ وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۲۸۳/۱)
سند کی تحقیق
- یحیی بن سعید (القطان): ثقۃ متقن، حافظ، امام، قدوۃ، کبار التاسعۃ
(تقریب التہذیب: ۷۵۵۷) - سفیان (الثوری): ثقۃ حافظ، فقیہ، عابد، امام حجۃ، رؤس الطبقۃ السابعۃ، کبھی کبھار تدلیس کرتے تھے
(تقریب التہذیب: ۲۴۴۵) - سماک بن حرب: صدوق، اور ان کی روایت خاص کر عکرمہ سے مضطرب رہتی ہے۔ آخر عمر میں ان کے حافظے میں تغیر آیا اور بعض اوقات تلقین قبول کرلیتے تھے۔
(تقریب التہذیب: ۲۶۲) یاد رہے: یہاں سماک کی روایت عکرمہ سے نہیں، لہٰذا اضطراب کا خدشہ نہیں۔ مزید برآں سفیان الثوری نے سماک سے حدیث قدیماً یعنی ان کے اختلاط سے پہلے سنی، اس لیے یہاں یہ روایت صحیح طور پر ثابت ہے۔
(دیکھیے بذل المجہود ۴۸۳/۴ تصنیف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)سماک کی روایت صحیح مسلم، بخاری فی التعلیق اور سنن اربعہ میں بھی موجود ہے۔ - قبیصۃ بن ہلب (الطائی):
- ابن مدینی نے کہا: مجہول
- نسائی نے کہا: مجہول
- العجلی نے کہا: ثقہ
- ابن حبان نے بھی ثقہ لوگوں میں شمار کیا
(تہذیب التہذیب ۳۱۴/۷)
ترمذی نے ان کی ایک حدیث کو حسن قرار دیا۔
(سنن الترمذی: ۲۵۲)ابوداؤد نے اس کی حدیث پر سکوت کیا۔
(سنن ابی داؤد ج۴ ص۱۴۷، کتاب الاطعمۃ، باب کراہیۃ التقدز للطعام ح ۳۷۸۴)ظفر احمد تھانوی دیوبندی کی تحقیق یہ ہے کہ ابوداؤد کا سکوت حدیث کے صالح الاحتجاج ہونے کی دلیل ہے اور اس کی سند کے راویوں کے صالح ہونے کی بھی دلیل ہے۔
(قواعد الدیوبندیہ فی علوم الحدیث ص۲۲۴، ۸۳)اگرچہ یہ قاعدہ مشکوک وباطل ہے، لیکن دیوبندی حضرات پر تھانوی صاحب کی تحقیق بہرحال حجت ہے۔ امام بخاری نے قبیصہ التاریخ الکبیر (۱۷۷/۷) میں ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں کی۔ تھانوی صاحب کی تحقیق کے مطابق اگر امام بخاری اپنی تواریخ میں طعن نہ کریں تو وہ راوی ثقہ ہوتا ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص۲۲۳ طبع بیروت)ابن ابی حاتم نے کتاب الجرح والتعدیل (۱۲۵/۷) میں ان کا ذکر کرکے سکوت کیا ہے۔ تھانوی صاحب کے نزدیک ابن ابی حاتم کا سکوت بھی توثیق ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص۳۵۸)تھانوی صاحب کے یہ اصول علی الاطلاق درست نہیں، اس پر عداب محمود الحمش نے اپنی کتاب "رواۃ الحدیث الذین سکت علیھم ائمۃ الجرح والتعدیل بین التوثیق والتجھیل” میں تنقید کی ہے۔ بہرحال الزامی طور پر یہی اصول اس مقام پر لاگو ہوں گے۔ امام العجلی معتدل امام ہیں۔ لہٰذا العجلی، ابن حبان اور ترمذی کی توثیق کے پیشِ نظر صحیح بات یہ ہے کہ قبیصۃ بن ہلب حسن الحدیث راوی ہیں۔ نیز قبیصہ کے والد ہلب رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔
(تقریب التہذیب : ۷۳۱۵)
ایک بے دلیل اعتراض
- نیموی حنفی صاحب فرماتے ہیں:
"رواہ احمد واسنادہ حسن لکن قولہ علی صدرہ غیر محفوظ”
(آثار السنن ص۸۷ ح۲۳۶) یعنی اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے لیکن "علی صدرہ” کے الفاظ محفوظ نہیں۔
جواب
- نیموی صاحب کا یہ کہنا درست نہیں؛ انہوں نے سفیان الثوری کے تفرد کو ان الفاظ کے غیر محفوظ ہونے کی دلیل بنایا ہے۔ حالانکہ محدثین کے ہاں یہ اصول مسلم ہے کہ راوی کا کسی لفظ میں منفرد ہونا اُسی وقت ضرر دیتا ہے جب وہ لفظ اُس سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف ہو۔ حافظ ابن حجرؒ شرح نخبۃ الفکر میں فرماتے ہیں:
"وزیادۃ راویھا مقبولۃ مالم تقع منافیۃ لمن ہو اوثق”
(تحفۃ الدر ص۱۹)
یعنی جب تک کوئی اضافہ کسی زیادہ ثقہ راوی کے خلاف نہ ہو، قابلِ قبول ہوتا ہے۔ - یہاں "علی صدرہ" کے الفاظ اضافہ ہیں، کسی کے خلاف نہیں، لہٰذا قابلِ قبول ہیں۔
شاہد نمبر ۱
قال ابن خزیمۃ فی صحیحہ: "نا ابوموسیٰ : نا مؤمل : نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال: صلیت مع رسول اللہ ﷺ ووضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علیٰ صدرہ”
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ ﷺ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھا۔
(ابن خزیمہ ۲۴۳۱/۱ ح ۴۷۹، احکام القرآن للطحاوی ۱۸۶/۱ ح۳۲۹)
سند کا جائزہ
بعض حضرات نے اس کے راوی مؤمل بن اسماعیل پر جرح نقل کی ہے۔
(بذل المجہود فی حل ابی داؤد ۴۸۶/۴، آثار السنن: ۳۲۵)
مؤمل بن اسماعیل
تعدیل کرنے والے:
- یحییٰ بن معین: ثقۃ
(تاریخ ابن معین: ۲۳۵) - الضیاء المقدسی: اورد حدیثہ فی المختارۃ (۳۴۵/۱ ح۲۳۷)
- ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال: ربما اخطا
(۱۸۷/۹) - احمد: روی عنہ
(مجمع الزوائد ۸۰/۱) - ابن شاہین: ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۴۱۶)
- الدارقطنی: صحح لہ فی سننہ (۱۸۶/۲ ح۲۲۶۱)
- سلیمان بن حرب: یحسن الثناء علیہ
(کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳) - الحاکم: صحح لہ فی المستدرک (۳۸۴/۱)
- الذہبی: کان من ثقات البصریین
(العبر ۳۵۰/۱) - الترمذی: صحح لہ فی سننہ (۶۷۲)
- ابن کثیر: قواہ فی تفسیرہ (۴۳۲/۴)
- الہیثمی: ثقۃ وفیہ ضعف، المجمع (۱۸۳/۸)
- ابن خزیمہ: اخرج عنہ فی صحیحہ (۲۴۳/۱ ح۴۷۹)
- البخاری: اخرج عنہ تعلیقاً فی صحیحہ (دیکھیے ح۲۷۰۰)
وغیرہ…
جرح کرنے والے:
- ابوحاتم: صدوق شدید فی السنۃ کثیر الخطا یکتب حدیثہ
(کتاب الجرح والتعدیل ۳۷۴/۸) - یعقوب بن سفیان: یروی المناکیر عن ثقات شیوخنا
(المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳) - ابن سعد: ثقۃ کثیر الغلط
(طبقات ابن سعد ۵۰۱/۵) - الدارقطنی: صدوق کثیر الخطا
(سوالات الحاکم للدارقطنی: ۴۹۲) - ابن حجر: صدوق سیئ الحفظ
(تقریب التہذیب: ۷۰۲۹)
اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ائمہ محدثین کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ یا کم ازکم حسن الحدیث ہیں۔ عددِ کثیر کا قول عدد قلیل کے مقابلے میں حجت ہے۔
(مؤمل بن اسماعیل کی مزید تفصیل کے لیے ص۲۸ تا ۳۸ ملاحظہ کیجیے)
تنبیہ
- حافظ مزی، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بغیر کسی سند کے امام بخاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے مؤمل کے بارے میں کہا: "منکر الحدیث" مگر امام بخاری کی کسی کتاب میں یہ جرح موجود نہیں ملتی۔ التاریخ الکبیر (۴۹/۸) میں بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کا ترجمہ پیش کیا ہے مگر کوئی جرح نہیں کی۔
- ظفر احمد تھانوی صاحب کا ایک قاعدہ ہے:
"کل من ذکرہ البخاری فی تواریخہ ولم یطعن فیہ فھو ثقۃ”
(قواعد فی علوم الحدیث ص۲۲۳)اس اصول (جو کہ اصلاً باطل ہے) کے مطابق بھی امام بخاری کی رائے میں مؤمل بن اسماعیل ثقہ قرار پاتے ہیں۔ امام بخاری نے مؤمل بن سعید الرحبی کو "منکر الحدیث” کہا ہے
(التاریخ الکبیر ج۸ ص۴۹)
اور یہ مؤمل بن اسماعیل سے مختلف راوی ہیں۔ - بخاری، ابن عدی، ابن حبان، عقیلی اور ابن الجوزی وغیرہ نے اپنی کتب الضعفاء میں مؤمل بن اسماعیل کی بابت یہ جرح نقل نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ حافظ مزی کو انتساب میں وہم ہوا اور حافظ ذہبی و ابن حجر نے ان کی اتباع کی ہے۔
تطبیق وتوفیق
- جارحین کی جرح عام ہے جبکہ معدلین کی تعدیل میں تخصیص ہے؛ یحییٰ بن معین نے مؤمل کو خصوصاً سفیان ثوری کی روایت میں ثقہ قرار دیا۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ۳۷۴/۸، شرح علل الترمذی لابن رجب ص۳۸۴، ۳۸۵) - مؤمل کی سفیان ثوری سے روایت کو ابن خزیمہ، دارقطنی، حاکم، ذہبی، ترمذی اور ابن کثیر نے صحیح و قوی کہا ہے۔
(دیکھیے ص۳۲، ۳۳) - متقدمین میں کسی نے مؤمل کو سفیان کی روایت میں ضعیف نہیں کہا۔ اسی لیے ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے بھی انہیں ثقہ قرار دیا۔
(اعلاء السنن ج۳ ص۱۰۸)
اس طرح جارحین و معدلین کے اقوال میں تطبیق ہوجاتی ہے اور تعارض ختم ہوجاتا ہے۔
دیوبندیہ کا ایک عجیب اصول
تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
"ان الراوی اذا کان مختلفا فیہ فھو حسن الحدیث وحدیثہ حسن”
(قواعد فی علوم الحدیث ص۷۷، نیز ملاحظہ ہو اعلاء السنن ۲۰۶/۲)
اس کے مطابق مؤمل چونکہ مختلف فیہ راوی ہے، تو وہ حسن الحدیث شمار ہوں گے۔ لہٰذا ان کی روایت بھی حسن ہوگی۔ اگر کوئی کہے کہ مؤمل اس روایت میں تنہا ہے تو اس کے جوابات یہ ہیں:
- سفیان ثوری سے روایت کرنے میں وہ ثقہ ہیں، لہٰذا حدیث کم ازکم حسن ہے۔
- یہ روایت کسی ثقہ راوی کے بھی خلاف نہیں۔
- حافظ ابن قیم نے اس حدیث کو "ترک السنۃ الصحیحۃ الصریحۃ” کی مثالوں میں ذکر کیا ہے۔
(اعلام الموقعین ۴۰۰/۲) - اس مضمون کی بہت سی روایات شواہد میں بھی آتی ہیں (مثلاً حدیث سابق و لاحق)۔
- اگر اس حدیث میں ضعف ہو تو وہ خود مؤمل کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض محدثین نے اسے سفیان الثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دیا۔ یہاں یہ (حدیث) حسن لذاتہ کے لیے بطور شاہد پیش کی گئی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ماہنامہ "الحدیث” حضرو جلد اول شمارہ۱ ص۲۶۔
شاہد نمبر ۲
قال ابوداؤد فی سننہ:
"حدثنا ابوتوبۃ : ثنا الھیثم یعنی ابن حمید عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال: کان رسول اللہ ﷺ یضع یدہ الیمنیٰ علیٰ یدہ الیسریٰ ثم یشد بھما علیٰ صدرہ وھو فی الصلاۃ”
طاؤس تابعی سے (مرسل) روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز میں سینے پر ہاتھ رکھتے تھے۔
(سنن ابی داؤد مع بذل المجہود ۴۸۲/۴ ح۷۵۹)
سند کی تحقیق
ابوتوبہ الربیع بن نافع الحلبی
- ثقۃ حجۃ عابد
(تقریب التہذیب: ۱۹۰۳) - یہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی اور بالاتفاق ثقہ ہیں۔
الہیثم بن حمید
- صدوق، رمی بالقدر
(تقریب التہذیب: ۷۳۶۲) - جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی، لہٰذا وہ حسن الحدیث ہیں۔
- دحیم: اعلم الاولین والآخرین بمکحول
(المعرفۃ والتاریخ ۳۹۵/۲ وسندہ صحیح) - احمد بن حنبل: ماعلمت الا خیراً
(الجرح والتعدیل ۸۲/۹ وسندہ صحیح) - یحییٰ بن معین: لا بأس بہ
(الجرح والتعدیل ۸۲/۹ وسندہ صحیح) - دارقطنی: ثقۃ (سنن دارقطنی ۳۱۹/۱ ح۲۰۴ میں فرمایا: "کلھم ثقات”)
- ابن شاہین: ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۵۴۹)
- ابن حبان: ذکرہ فی کتاب الثقات (۲۳۵/۹)
- ابوزرعہ الدمشقی: اعلم اہل دمشق لحدیث مکحول واجمعہ لاصحابہ: الہیثم بن حمید ویحیی بن حمزۃ
(تاریخ ابو زرعہ: ۹۰۲) - الذہبی: "الفقیہ الحافظ”
(تذکرۃ الحفاظ ۲۸۵/۱، میزان الاعتدال ۳۲۱/۴ میں "صح” لکھا) - بیہقی: "ھٰذا اسناد صحیح ورواتہ ثقات”
(کتاب القراۃ خلف الامام ص۶۲) - ابن حجر: صدوق، رمی بالقدر
(تقریب التہذیب: ۷۳۶۲)
- دحیم: اعلم الاولین والآخرین بمکحول
- اس کے مقابلے میں ابو مسہر کا قول "کان ضعیفاً قدریاً” جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ نتیجۃً الہیثم بن حمید ثقہ و صدوق ہیں۔
ثور بن یزید بن زیاد الکلاعی ابو خالد الحمصی
- ابن سعد، محمد بن اسحاق، دحیم، احمد بن صالح، یحییٰ بن معین، یحییٰ بن سعید، محمد بن عوف، نسائی، ابوداؤد اور العجلی نے کہا: ثقہ ہے۔
- ابن حبان نے ثقہ لوگوں میں ذکر کیا۔
- ساجی اور ابوحاتم نے کہا: صدوق۔
- ابن عدی نے کہا: "ھو مستقیم الحدیث صالح فی الشامیین” (تہذیب التہذیب ج۲ ص۳۰، ۳۲)
- وہ قدری تھے لیکن بعد میں رجوع کا ذکر حافظ ذہبی نے کیا ہے اور یہ صحیح بخاری کے راوی ہیں، لہٰذا ثقہ ہیں۔
سلیمان بن موسیٰ الاموی الدمشقی الاشدق
تعدیل کرنے والے:
- سعید بن عبدالعزیز: کان اعلم اہل الشام بعد مکحول
- دحیم: اوثق اصحاب مکحول سلیمان بن موسیٰ
(الجرح والتعدیل ۱۴۱/۴ وسندہ صحیح) - ابن معین: ثقۃ
(تاریخ عثمان بن سعید الدارمی: ۲۶، ۳۶۰) - ابن عدی: وھو عندی ثبت صدوق
(الکامل ۱۱۱۹/۳) - الدارقطنی: من الثقات الحفاظ
(کتاب العلل ج۵ ورقہ۱۱۰ موسوعۃ اقوال الدارقطنی ۳۰۳/۱) - عطاء بن ابی رباح: اثنی علیہ
(کتاب المعرفۃ والتاریخ ۴۰۵/۲ وسندہ صحیح) - ہشام بن عمار: ارفع اصحاب مکحول سلیمان بن موسیٰ
(کتاب المعرفۃ والتاریخ ۳۹۶/۲ وسندہ صحیح) - ابن سعد: کان ثقۃ، اثنی علیہ ابن جریج
(طبقات ابن سعد ۴۵۷/۷) - الزہری: اثنی علیہ
(مسند احمد ۴۷/۶ ح۲۴۲۰۵ وسندہ صحیح) - ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال: کان فقیہاً ورعاً
(کتاب الثقات ۳۷۹/۶، ۳۸۰) - ابن المدینی: من کبار اصحاب مکحول (باسند صحیح نہیں ملا)
- الذہبی: الامام الکبیر مفتی دمشق
(سیر اعلام النبلاء ۴۳۳/۵) - ابن حجر: صدوق فقیہ، فی حدیثہ بعض لین، خولط قبل موتہ بقلیل
(تقریب التہذیب: ۲۶۱۶) - حاکم: صحح لہ
(المستدرک ۱۶۸/۲ ح۲۷۰۶)
جرح کرنے والے:
- البخاری: عندہ مناکیر (الضعفاء للبخاری: ۱۴۸)، وقال: منکر الحدیث انا لا اروی عنہ شیئا
- ابوحاتم: محلہ الصدق وفی حدیثہ بعض الاضطراب
- نسائی: احد الفقہاء لیس بالقوی فی الحدیث (الضعفاء: ۲۵۲)
- ابوزرعہ الرازی: ذکرہ فی الضعفاء (۶۳۳/۲)
- العقیلی: ذکرہ فی الضعفاء (۱۴۰/۲)
جمهور کے نزدیک سلیمان بن موسیٰ ثقہ و صدوق ہیں (یہ صحیح مسلم کے راوی بھی ہیں)، لہٰذا اس حدیث میں ان کی وجہ سے کوئی ایسی کمزوری نہیں جو ناقابلِ قبول ہو۔ "خولط بیسیر قبل موتہ” ثابت بھی نہیں، اور یہاں غیر مضر ہے۔
ابوداؤد نے اس حدیث پر سکوت کیا، لہٰذا تھانوی صاحب کے اصول کے مطابق یہ روایت صالح الاحتجاج ہے۔ شیخ البانی نے اس روایت کے بارے میں کہا:
"رواہ ابوداؤد (۷۵۹) باسناد صحیح عنہ”
(ارواء الغلیل ۸۱۵/۲)
تنبیہ
ہمارے نزدیک یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ طاؤس (تقریب التہذیب: ۳۰۰۹) تابعی ہیں اور ابن عباس وغیرہ کے شاگرد ہیں۔ مرسل روایت ہمارے ہاں ضعیف ہوتی ہے۔
- تاہم فریقِ مخالف کے نزدیک مرسل حجت ہے۔ ظفر احمد عثمانی صاحب نے کہا:
"قلت: والمرسل حجۃ عندنا”
(اعلاء السنن ج۱ ص۸۲)
- نیز یہ روایت بطورِ شاہد پیش کی گئی ہے۔ (ملاحظہ ہو مقدمہ ابن الصلاح ص۳۸ بحث المرسل)
ایک دوسری روایت (سندِ بیہقی)
السنن الکبری للبیہقی (۳۰/۲) میں محمد بن حجر الحضرمی سے روایت ہے کہ:
"حدثنا سعید بن عبدالجبار بن وائل بن حجر عن ابیہ عن امہ عن وائل بن حجر قال: حضرتُ رسول اللہ ﷺ۔۔۔ ثم وضع یمینہ علی یسراہ علی صدرہ”
یہ روایت سخت ضعیف ہے، کیونکہ محمد بن حجر کی روایات منکر ہیں، امِ عبدالجبار کی توثیق معلوم نہیں، اور سعید بن عبدالجبار بھی مجروح ہے۔
(الجوہر النقی ۳۰/۲، میزان الاعتدال ۵۱۱/۳، ۱۴۷/۲)
ظفر احمد تھانوی صاحب کے بقول یہ راویان (محمد بن حجر اور سعید بن عبدالجبار) مختلف فیہ ہیں۔
(اعلاء السنن ۷۰/۱)
- تھانوی صاحب کے اصول کے مطابق مختلف فیہ راوی کم ازکم حسن الحدیث ہوتا ہے۔
- امِ عبدالجبار کے مجہول ہونے سے بھی انہیں فرق نہیں پڑتا، کیونکہ تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
"والجہالۃ فی القرون الثلاثۃ لا یضر علینا”
(اعلاء السنن ۱۶۱/۳)
خلاصۃ التحقیق
- قبیصہ بن ہلب والی روایت سند کے لحاظ سے حسن لذاتہ ہے، اور شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ کے درجے تک پہنچتی ہے۔
- اس پوری تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ نماز میں مردوں اور عورتوں سب کے لیے ہاتھ سینے پر باندھنا ہی سنت ہے۔
واللہ الموفق
آخری تنبیہ (مصنف ابن ابی شیبہ اور ایک الحاقی عبارت)
بعض دیوبندی حضرات کی ایک غلطی یا علمی خیانت کا تذکرہ ضروری ہے۔ حالیہ دور میں مصنف ابن ابی شیبہ کو ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (کراچی) نے شائع کیا ہے۔ اس میں ایک حدیث یوں چھپی ہے:
وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ
(مصنف ۳۹۰/۱)
حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے پرانے مطبوعہ نسخوں (مثلاً ۱۹۶۶ء/۱۳۸۶ھ حیدرآباد الہند) میں اس حدیث کا اختتام "علی شمالہ فی الصلوٰۃ” پر ہوتا ہے اور "تحت السرۃ" کے الفاظ موجود ہی نہیں۔
- مصنف کے قدیم نسخوں میں یہ الفاظ نہیں ملتے۔ علامہ محمد حیات سندھی نے بھی عون المعبود (۴۶۲/۲) میں لکھا ہے کہ انہوں نے مصنف کے نسخے میں یہ الفاظ نہیں پائے۔
- استاذ محترم سید محب اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ عامرہ میں موجود مصنف کا قلمی نسخہ بھی اس اضافے سے خالی ہے۔
- انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:
"فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا”
(فیض الباری ۲۶۷/۲) - یعنی میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کے تین قلمی نسخے دیکھے، ان میں سے کسی میں بھی یہ الفاظ ("تحت السرۃ”) نہیں ہیں۔
- یہ روایت امام وکیع کے واسطے سے مسند احمد (۳۱۶/۴ ح۱۸۸۴۶)، شرح السنۃ (۳۰/۳ ح۵۶۹)، سنن دارقطنی (۲۸۶/۱ ح۱۰۸۸) میں بھی ہے، وہاں بھی "تحت السرۃ” کے الفاظ نہیں پائے جاتے۔
- سنن نسائی (۱۲۵/۲، ۱۲۶ ح۸۸۸) اور سنن دارقطنی (۲۸۶/۱ ح۱۰۹۱) میں عبداللہ بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی، وہاں بھی یہ الفاظ نہیں۔
- ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ” کے بغیر روایت کی۔
(کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی ۱۲۱/۳، السنن الکبری ۲۸/۲، المعجم الکبری للطبرانی ۹/۲۲ ح۱، تہذیب الکمال ۴۹۹/۱۸) - اگر یہ الفاظ اصل میں ہوتے تو متقدمینِ حنفیہ (طحاوی، ابن ترکمانی اور ابن ہمام وغیرہ) اسے ضرور ذکر کرتے۔
- نووی، ابن حجر وغیرہ بھی اس پر خاموش ہیں۔
- چنانچہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ والوں کو چاہیے کہ وہ واضح کریں کہ یہ "تحت السرۃ” کے الفاظ انہوں نے کس نسخے سے اخذ کیے، کیونکہ کسی قدیم معتبر نسخے میں یہ الفاظ نہیں پائے جاتے۔
تاریخی پس منظر
- نویں صدی کے قاسم بن قطلوبغا حنفی (جنہیں البقاعی نے کذاب کہا، دیکھیں الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے پہلی مرتبہ مصنف ابن ابی شیبہ میں اپنی طرف سے یہ الفاظ درج کردیے۔
- اب ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) نے ان ہی من گھڑت الفاظ کو متن میں شامل کردیا، حالانکہ نیموی نے آثار السنن میں اس اضافہ کو غیر محفوظ تسلیم کیا تھا۔
- دوسری طرف ابن خزیمہ کی روایت "علی صدرہ" جمیع نسخوں میں موجود ہے اور مسند بزار میں "عند صدرہ" کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔
(ملاحظہ ہو فتح الباری ۱۷۸/۲)
دعا
اللھم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، آمین