سنت طریقہ ہی کیوں ضروری ہے؟
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
{وَأَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ} (البقرہ 2: 43)
’’نماز قائم کرو۔‘‘
یہ ایک عمومی حکم ہے، لیکن نماز کس طرح قائم ہو گی؟ اس کی تفصیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں بیان کی گئی ہے:
’صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي‘
’’نماز ایسے پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری: 88/1، ح: 631)
عبادت کا صحیح طریقہ
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751-691ھ) فرماتے ہیں:
’’اللہ کی عبادت کا صرف وہی طریقہ معتبر ہے، جو اس نے اپنے رسولوں کے ذریعے بتایا ہے۔ عبادت بندوں پر اللہ کا حق ہے اور اس حق کو اسی طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے، جسے اللہ نے خود مقرر کیا ہے، اور اس پر وہ راضی ہو۔‘‘
(إعلام الموقعین عن رب العالمین: 344/1)
اس سے معلوم ہوا کہ عبادت قبول تب ہو گی جب وہ سنت کے مطابق کی جائے۔ سنت کا علم ہمیں صرف ’’صحیح‘‘ حدیث سے ہوتا ہے، لہٰذا ’’ضعیف‘‘ روایات کی بنیاد پر عبادات کا طریقہ اپنانا جائز نہیں۔
نماز میں سنت طریقہ
نماز چونکہ عبادت کا اہم ستون ہے، اس لیے اس کی ادائیگی میں بھی سنت طریقے کو اپنانا لازمی ہے۔ یہ طریقہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
جلسہ استراحت اور تشہد کے بعد اٹھنا
نماز کی پہلی اور تیسری رکعت کے بعد، دونوں سجدوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے اطمینان سے بیٹھنا ’’جلسۂ استراحت‘‘ کہلاتا ہے۔ اس جلسہ کے بعد، اور درمیانی تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنا سنت ہے۔ اس اٹھنے کا صحیح طریقہ جاننا ضروری ہے تاکہ نماز مکمل طور پر سنت کے مطابق ہو۔
دلیل نمبر 1: امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کی روایت
مشہور تابعی، امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ نے ایک اہم واقعہ بیان کیا ہے، جس میں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور فرمایا:
’’میں تمہیں نماز پڑھا رہا ہوں تاکہ تمہیں دکھا سکوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے۔‘‘
(صحیح بخاری: 824)
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا کہ دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر زمین پر ہاتھ ٹیک کر اگلی رکعت کے لیے اٹھا جاتا تھا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا فتویٰ
امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہم اس حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں کہ جو شخص سجدے یا تشہد کے بعد اٹھے، وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے۔ یہ عمل عاجزی کے قریب تر ہے، نماز کے لیے مفید بھی ہے اور گرنے سے بچنے کا ذریعہ بھی۔‘‘
(کتاب الام: 101/1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا باب
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک باب قائم کیا ہے:
’’نمازی (پہلی اور تیسری) رکعت سے اٹھتے ہوئے زمین کا سہارا کیسے لے گا۔‘‘
اس باب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مدعا یہ ہے کہ سجدے یا تشہد کے بعد اٹھتے وقت زمین پر ہاتھ ٹیکنا سنت طریقہ ہے۔
دلیل نمبر 2: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل
ازرق بن قیس تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ نماز میں اٹھتے وقت اپنے ہاتھوں کا سہارا لیتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 394/1)
دلیل نمبر 3: ابو قلابہ اور حسن بصری رحمہ اللہ کا عمل
خالد بن مہران رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابو قلابہ اور حسن بصری رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ نماز میں اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت اپنے ہاتھوں کا سہارا لیتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 395/1)
گھٹنوں کے بل اٹھنے کا طریقہ
بعض لوگ نماز میں سجدوں یا تشہد کے بعد گھٹنوں کے بل اٹھنے کا طریقہ اپناتے ہیں۔ آئیے اس طریقے کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا یہ سنت طریقے کے مطابق ہے یا نہیں۔
روایت نمبر 1: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت
روایت کا متن:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں اٹھتے وقت اپنے ہاتھوں کا سہارا لے۔‘‘
(مسند الإمام احمد: 147/2، سنن أبی داؤد: 992)
تبصرہ:
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ "شاذ” ہے۔ اس روایت کو امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں محمد بن عبد الملک غزال کو غلطی لگی ہے۔ اس نے کئی ثقہ اور زیادہ مستند راویوں کی مخالفت کرتے ہوئے یہ الفاظ بیان کیے ہیں، جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف قرار دی گئی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو "ضعیف” اور "شاذ” قرار دیا ہے، اور امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ) فرماتے ہیں:
’’یہ غلطی ہے، کیونکہ اس میں محمد بن عبد الملک نے باقی تمام راویوں کی مخالفت کی ہے۔ یہ صحیح کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘
(معرفۃ السنن والآثار: 43/3)
شواہد اور مزید دلائل:
دیگر مستند روایات:
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے امام احمد بن حنبل، محمد بن رافع، محمد بن سہل عسکر، حسن بن مہدی، اور احمد بن یوسف سلمی وغیرہ نے یہ روایت بیان کی ہے:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں بیٹھتے ہوئے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے۔‘‘
اس روایت میں اٹھنے کا ذکر نہیں بلکہ بائیں ہاتھ پر ٹیک لگانے کی ممانعت ہے۔
صحیح روایت:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دوسری حدیث اس طرح منقول ہے:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے منع فرمایا اور فرمایا: یہ یہود کی نماز ہے۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 272/1، السنن الکبریٰ للبیہقی: 136/2، سند صحیح)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
نافع تابعی کی روایت:
نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا جو گھٹنوں کے بل گرا ہوا تھا اور بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا رکھی تھی۔ انہوں نے فرمایا: ایسے نماز نہ پڑھو، کیونکہ ایسے لوگ بیٹھتے ہیں جنہیں عذاب دیا جا رہا ہو۔‘‘
(السنن الکبریٰ للبیہقی: 136/2، سند حسن)
روایت نمبر 2: سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت
روایت کا متن:
’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے، تو اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے اور جب اٹھتے، تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے۔‘‘
(سنن ابی داؤد: 828، سنن النسائی: 1090، سنن الترمذی: 268، سنن ابن ماجہ: 883، تصحیح ابن خزیمہ: 629، ابن حبان: 1909)
تبصرہ:
اس روایت کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ اس میں شریک بن عبد اللہ قاضی نامی راوی شامل ہیں، جو کہ "مدلس” ہیں۔ انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی وضاحت نہیں کی، جس کی بنا پر یہ روایت ضعیف سمجھی جاتی ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو "ضعیف” قرار دیا ہے۔
(السنن الکبریٰ: 100/2)
روایت نمبر 3: سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت
روایت کا متن:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اٹھتے، تو گھٹنوں کے بل اٹھتے اور اپنی رانوں کا سہارا لیتے تھے۔‘‘
(سنن ابی داؤد: 736، 839)
تبصرہ:
اس روایت کی سند میں "انقطاع” ہے، جس کی وجہ سے اسے "ضعیف” قرار دیا گیا ہے۔ اس میں موجود راوی عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے سماع نہیں کیا، جس کی وضاحت محدثین کرام نے کی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے کوئی حدیث نہیں سنی، نہ ہی ان سے ملاقات ہوئی۔‘‘
(المجموع شرح المہذب: 446/3)
متابعت:
اس روایت کی ایک "متابعت” بھی موجود ہے
(سنن ابی داؤد: 839، مراسیل ابی داؤد: 42)
لیکن وہ بھی دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:
- کلیب بن شہاب تابعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست روایت بیان کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہ روایت "مرسل” ہے۔ اور "مرسل” روایت ضعیف کی ایک قسم ہے۔
- شقیق ابو لیث نامی راوی "مجہول” ہیں۔ امام طحاوی رحمہ اللہ (شرح معانی الآثار: 255/1)، حافظ ذہبی رحمہ اللہ (میزان الاعتدال: 279/2)، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (تقریب التہذیب: 2819) نے بھی اس راوی کو مجہول قرار دیا ہے۔
روایت نمبر 4: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت
روایت کا متن:
’’یہ سنت طریقہ ہے کہ فرض نماز میں جب آدمی پہلی دو رکعتوں کے بعد اٹھے، تو زمین پر ہاتھ نہ ٹیکے، سوائے اس کے کہ وہ بوڑھا ہو اور اس طرح اٹھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ: 394/1، 395)
تبصرہ:
اس روایت کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ اس میں راوی عبد الرحمن بن اسحاق کوفی ہے، جسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس راوی کو ضعیف کہا ہے۔
(تقریب التہذیب: 198، فتح الباری: 523/13)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’یہ راوی ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم: 173/1)
عبد الرحمن بن اسحاق کو محدثین نے "منکر الحدیث” قرار دیا ہے، اس لیے یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے اور ضعیف سمجھی جاتی ہے۔
روایت نمبر 5: ابراہیم بن یزید نخعی تابعی کا قول
روایت کا متن:
’’وہ (ابراہیم بن یزید نخعی) بوڑھے یا مریض کے علاوہ ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر اٹھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ: 395/1)
تبصرہ:
اس قول کی سند بھی "ضعیف” ہے، کیونکہ اس میں موجود راوی ہشیم بن بشیر واسطی "مدلس” ہیں اور انہوں نے سماع کی وضاحت نہیں کی۔
ویسے بھی یہ قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح و صریح فرمان اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل کے خلاف ہے، لہٰذا یہ قول قابلِ التفات نہیں ہے۔
الحاصل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جلسہ استراحت یا تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے تھے۔ صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں یہی طریقہ اختیار کرتے تھے۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بھی اس طریقے کو نبوی سنت قرار دیا ہے۔ تابعین نے بھی اس سنت کو اختیار کیا اور اپنے شاگردوں کو منتقل کیا۔ امام حدیث نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو صحیح سمجھا اور اسی کو ترجیح دی۔