نماز میں "بسم اللہ الرحمن الرحیم” بالجہر پڑھنے کا مسئلہ
سوال:
نماز میں "بسم اللہ الرحمن الرحیم” کو اونچی آواز سے (بالجہر) پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟
الجواب:
الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
سری اور جہری نمازوں میں "بسم اللہ” کے پڑھنے کا طریقہ
سری نمازوں (ظہر، عصر) میں "بسم اللہ” آہستہ پڑھنے پر اجماع ہے۔
جہری نمازوں (فجر، مغرب، عشاء) میں:
◈ آہستہ پڑھنا درست اور جائز ہے۔
◈ اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ہے۔
◈ تاہم، آہستہ پڑھنا افضل ہے۔
صحابہ کرام کا عمل: بسم اللہ بالجہر کی دلیل
سیدنا عبد الرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ کا بیان:
"صليت خلف ابن عمر فجهر: ببسم الله الرحمن الرحيم”
"میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، انہوں نے ‘بسم اللہ الرحمٰن الرحیم’ اونچی آواز سے پڑھی۔”
مصنف ابن ابی شیبہ: ج1، ص412
شرح معانی الآثار: ج1، ص137، دوسرا نسخہ ج1، ص200
السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2، ص48
یہ روایت بالکل صحیح السند ہے۔
(ملاحظہ ہو: راقم الحروف کی کتاب "ہدیۃ المسلمین”، حدیث: 13)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا عمل:
اپنے دور خلافت میں آپ نے جہر کے ساتھ بسم اللہ پڑھی۔
کسی صحابی نے آپ کے اس عمل کی مخالفت نہیں کی۔
لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ:
دور فاروقی میں بسم اللہ بالجہر پر صحابہ کرام کا اجماع تھا۔
اجماع کا شرعی حجت ہونا
احادیث صحیحہ اور عمومِ قرآن سے یہ بات واضح ہے کہ:
◈ اجماع شرعی حجت ہے
◈ اور امت مسلمہ گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو سکتی۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الرسالۃ” دیگر محدثین کی کتب
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
انہوں نے نماز پڑھائی:
◈ "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” پڑھی
◈ پھر سورۃ الفاتحہ پڑھی
◈ پھر آمین کہی
◈ آخر میں فرمایا:
"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”
"اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری نماز نبی کریم ﷺ کی نماز کے سب سے زیادہ مشابہ ہے۔”
سنن النسائی: حدیث 906
صحیح ابن خزیمہ: ج1، ص251، حدیث 499
ابن حبان (الاحسان): ج3، ص143، حدیث 794
الحاکم: 1/232
الذہبی
یہ سند بالکل صحیح ہے۔
(کیونکہ خالد کا، سعید بن ابی ہلال سے سماع، اختلاط سے پہلے کا ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں خالد عن ابی ہلال والی روایات موجود ہیں)
ملاحظہ ہو: راقم الحروف کا رسالہ "القول المتین فی الجہر بالتامین” (ص25)
امام ترمذی اور دیگر محدثین کی رائے
اس صحیح اور مرفوع حدیث سے بسم اللہ بالجہر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان رحمہم اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق:
◈ سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہم
◈ تابعین کرام اور امام شافعی رحمہم اللہ
ان سب کے نزدیک بسم اللہ بالجہر مشروع تھی۔
سنن ترمذی، کتاب الصلوۃ، باب من رای الجہر ببسم اللہ الرحمٰن الرحیم، حدیث 245
امام شافعی پر اعتراض کا مطلب
جو شخص بسم اللہ بالجہر پر اعتراض کرے گا، تو:
◈ اس کا اعتراض بلا واسطہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر ہوگا۔
◈ اسی طرح، اہل حدیث پر عقائد یا اعمال کے بارے میں اعتراض:
درحقیقت وہ اعتراض احادیث صحیحہ، آثار صحابہ و تابعین اور ائمہ اسلام پر ہوتا ہے۔
علماء حق کی تصانیف
شیخ الاسلام امام علی بن عمر دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ
سمیت دیگر علماء نے بسم اللہ بالجہر پر کتابیں اور رسائل لکھے ہیں۔
امام دارقطنی سے منسوب ایک مردود قصہ
زیلعی نے امام دارقطنی سے ایک قول نقل کیا:
"بعض مالکیوں کے قسم دلانے پر کہا کہ بسم اللہ بالجہر پر کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں۔”
نصب الرایہ: ج1، ص358-359
التحقیق مع التنقیح: ج1، ص313
جواب:
یہ قصہ مردود ہے کیونکہ:
➊ راوی مجہول ہیں۔
➋ "وقد حکی لنا مشائخنا” جیسی غیر مستند عبارت ہے۔
➌ ان مجہول مشائخ کی امام دارقطنی سے ملاقات بھی ثابت نہیں۔
لہٰذا، ایسی ضعیف اور مردود حکایات کی بنیاد پر بسم اللہ بالجہر کی مخالفت کرنا درست نہیں۔
"انا للہ وانا الیہ راجعون”
محمد تقی عثمانی دیوبندی کا اعتراف
فرماتے ہیں:
◈ "حنفیہ میں سے اس موضوع پر سب سے مفصل کلام حافظ جمال الدین زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے۔”
◈ "نصب الرایہ” میں تقریباً 60 صفحات اسی مسئلہ پر لکھے۔
◈ بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔
◈ ساتھ ہی اعتراف کرتے ہیں کہ:
"تسمیہ کے جہر و اخفاء کے مسئلہ میں اختلاف جواز اور عدم جواز کا نہیں بلکہ محض افضل و مفضول کا ہے۔”
درس ترمذی: ج1، ص499
خلاصہ کلام
"بسم اللہ الرحمن الرحیم” کو نماز میں آہستہ یا اونچی آواز سے پڑھنا دونوں طرح درست اور جائز ہے۔
ھذا ما عندی، واللہ أعلم بالصواب