مذاهب اربعه
حنفی مذہب سے ثبوت
نمبر 1 علامہ جمال الدین زیلعی نے نصب الرايه ص 140 ج 2 میں اس سنت کی نفی میں روایت لا کر اس پر جرح کی ہے اور سند اومتنا اسکو خطاء مانا ہے نیز ابن جوزی سے نقل کیا ہے کہ اس نے اس روایت کو موضوع روایات میں شامل کیا ہے اور صفحه نمبر 141 ج 2 میں اس سنت کے ثبوت کے بارے میں روایات نقل کی ہیں نیز صفحه نمبر 173 میں اس طرح فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ
«ان رواية المثبت مقدمة على النافى مع ان رواية الاثبات اصح»
”ثبوت والی روایت نفی والی روایت پر مقدم ہے نیز ثبوت والی رویت اصح ہے“
نمبر 2 علامہ ابن نجیم البحر الرائق شرح کنز الدقائق ص266 ج1 میں لکھتے ہیں کہ
و فى صحيح البخارى انه صلى الله عليه وسلم قال صلوا قبل المغرب ركعتين و هو أمر ندب وهو الذى ينبغى اعتقاده فى هذه المسئلة و الله المو فق و ما ذكروه فى الجواب لا يدفعه
”اور صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا ہے کہ مغرب سے قبل دور کعت پڑھا کرو۔ آپ صلى الله عليہ وسلم کا یہ حکم انتخاب کیلئے ہے اور اس مسئلے کیلئے یہی عقیدہ رکھنا چاہئے کہ (عمل کیلئے ) توفیق اللہ دینے والا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اس حدیث کیلئے جو جواب دیا جاتا ہے وہ اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا“
نمبر 3 علامہ عبدالحئی لکھنوی عمده الرعايه حاشیه شرح الوقايه ص 132 ج2 اس سنت کو مبارح اور جائز کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ
«لو صلى ركعتين خفيفيتين بحيث لم يلزم تأخير المغرب لم يكره»
”اگر یہ سنت دو رکعتیں ہلکی کر کے پڑھی جائیں کہ مغرب فرض نماز میں تاخیر نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے“
علامہ ابن الهمام فتح القدير شرح الهداية ص 318 ج 1 میں اسی طرح لکھتے ہیں کہ دو رکعتیں کم وقت لیتی ہیں اس لئے فرض نماز میں تاخیر نہیں ہوگی۔
مالکی مذہب سے ثبوت
نمبر 1 امام ابو الولید باجی جو کہ مالکی مذہب کے بڑے مشہور عالم ہیں ۔ وہ المنتقى شرح المؤطا ص 267 ج 1 میں لکھتے ہیں کہ
«و اما قبل المغرب فقد روى عن انس كنا نفعل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد غروب الشمس قبل صلوة المغرب فقلت له اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اصلا هما قال كان يرانا نصليهما فلم يا مرنا و لا ينهانا و هذا يدل على جواز ذالك»
نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں سنت کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں پڑھتے تھے پھر راوی نے پوچھا رسول اللہ بھی پڑھتے تھے؟ کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے پس آپ صلى الله عليه وسلم نہ ہمیں منع کرتے نہ حکم کرتے تھے۔ (یہ حدیث نمبر 4 میں گذری) اور یہ حدیث اس سنت کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے“
نمبر 2 علامه ابن العربی شرح الترمذی ص 300 ج 2 میں لکھتے ہیں کہ
«الحديث فيه صحيح عنه صلى الله عليه وسلم فى كل صحيح مسند»
”اس سنت کے ثبوت کے بارے میں حدیث کی ہر صحیح اور مسند کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث موجود ہے“
شافعی مذہب سے ثبوت
نمبر 1 امام النووى شرح مسلم ص 278 ج 1 میں فرماتے ہیں کہ
«والمحتار استحبا بمالهذه الاحاديث الصحيحه الصريحة و فى صحيح البخاري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلوا قبل المغرب قال فى الثالثة لمن شاء و اما قولهم يؤدى الى تأخير المغرب فهذا خيال منا بد للسنة فلا يلتفت اليه و مع هذا فهو زمن يسيرلا تتأخر به الصلوة عن اول وقتها و اما من زعم النسخ فهو مجازف لان النسخ لا يصار اليه الا اذ اعجزنا عن التاويل و الجمع بين الاحاديث و علمنا التاريخ وليس هنا شئ من ذالك و الله اعلم»
مختار مذہب کے مطابق مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مستحب (موجب اجر ) ہے اور صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حکم دیا کہ مغرب سے پہلے نماز پڑھو الخ (حدیث نمبر 3 ) باقی یہ کہنا کہ فرض میں تاخیر ہو جائے گی فضول خیال اور خلافِ سنت ہے نیز (دو رکعتیں پڑھنے) سے فرض نماز اول وقت سے مؤخر نہیں ہوتی اور جو اس کے منسوخ ہونے کا گمان رکھتے ہیں وہ خلاف حق ہے اس لئے کہ منسوخ کہنا تب صحیح ہو گا جب روایات ایک دوسرے کے متعارض ہوں اور ان میں تطبیق دینا نا ممکن ہو ایضاً تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کونسی روایت مقدم ہے اور کونسی مؤخر یہاں یہ دونوں شرطیں ناپید ہیں اس لئے اس سنت کا حکم منسوخ نہیں محکم ہے“
نمبر 2 فقہ شافعی کی مشہور کتاب الانوار لاعمال الابرار مصنفہ علامہ یوسف اردبیلی ص 80 ج 1 میں ہے کہ
«و استحب ركعتان قبل المغرب بين الاذانين»
”نماز مغرب سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے“
نمبر 3 علامہ ابن سيد الناس شرح الترمذى (المصور) میں حدیث نمبر 1 کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
«قافيه استحباب ركعتين قبل المغرب»
”اس حدیث سے نماز مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھنا مستحب ثابت ہوتا ہے“
نمبر 4….. امام ابو القاسم الرافعي فتح العزيز شرح الوجيز ص 18 تا 20 ج4 (في ذيل المجموع شرح المهذب) میں لکھتے ہیں کہ
«و بهذا الوجه قال ابو اسحاق الطوسي و كذالك ابو الزكريا»
”شافعی مذہب کے دو بڑے امام ابو اسحاق طوسی اور ابو زکریا سکری اس سنت کو مستحب کہتے ہیں“
نمبر 5 امام غزالی احیاء العلوم ص 175 ج 1 میں فرماتے ہیں کہ
«واما ركعتان قبلها بين اذان المؤذن و امامة المؤذن على سبيل المبادرة فقد نقل عن جماعة من الصحابة كابي بن كعب و عباده بن الصامت و آبي ذرو زيد بن ثابت»
”مغرب سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دور کعتیں جلدی پڑھ لینا ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ اہلی بن کعب ، عبادہ بن ثامت ، ابوذر غفاری اور زید بن ثابت رضی اللہ عنھم“
حنبلی مذہب سے ثبوت
نمبر 1 فتاوی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ میں ہے کہ
«فاذا كان المؤذن يفرق بين الاذان مقدار ذالك فهذه صلوة حسنة»
”جب مؤذن اذان اور اقامت کے مابین مسنون طریقے سے ٹھرے تو یہ سنت بہتر اور موجب اجر ہے“
نمبر2 فقہ حنبلی کی معتبر کتاب شرح الزاد المستقنع ص 60 میں ہے کہ
”نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں مباح اور جائز ہیں“
نمبر 3 كشاف القناع ص 498 ج 1 میں ہے کہ
«و يبين لمن شاء ركعتان بعد اذان المغرب قبلها»
”نماز مغرب سے قبل دور کعتیں جو چاہے اس کے لئے سنت ہیں“
اور ص 282 ج 1 میں ہے کہ
«وفيهما اى (الركعتين ) قبل المغرب (ثواب) قلت هذا يدل على استحبا بهما»
”مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا باعث اجر ہے لہذا انکا پڑھنا مستحب ہے “
نمبر 4 فقہ حنفی کی مشہور کتابوں المغنی ص 766 ج 1 اور الانصاف ص 422 ج 1 میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کو جائز اور مباح کہا گیا ہے۔