نماز كب باطل ہوتی ہے اور کس سے ساقط ہوتی ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نماز كب باطل ہوتی ہے اور کس سے ساقط ہوتی ہے

➊ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
إن كنا لنتكلم فى الصلاة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم
”ہم عہد رسالت میں دوران نماز ایک دوسرے سے بات چیت کر لیتے تھے۔“
اور اپنی ضرورت و حاجت ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے حتی کہ آیت: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ نازل ہوئی تو فأمرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام ”ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور دوران نماز گفتگو سے منع کر دیا گیا۔“
[بخاري: 1200 ، كتاب الجمعة: باب ما ينهى عنه من الكلام فى الصلاة ، مسلم: 539 ، أبو داود: 949 ، ترمذي: 405 ، نسائي: 18/3 ، احمد: 368/4]
➋ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران نماز سلام کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ (حالانکہ پہلے جواب دیا کرتے تھے ) اور (پھر بعد میں ) فرمایا: ان فى الصلاة لشغلا ”بلاشبہ نماز میں مشغولیت ہے۔“
[بخاري: 1199 أيضا ، مسلم: 538 ، مسند شافعي: 351 ، أحمد: 377/1 ، أبو داود: 924 ، نسائي: 19/3 ، بيهقى: 248/2]
➌ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: إذا كنتم فى الصلاة فاقتنوا ولا تكلموا ”جب تم نماز میں ہوتے ہو تو فرمانبردار رہو اور کلام نہ کرو۔“
[مسند ابي يعلي: 384/8]
➍ سنن ابی داود میں ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
ان الله قد أحدث ألا تكلموا فى الصلاة
”بے شک اللہ تعالیٰ نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ دوران نماز کلام مت کرو ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 817 ، كتاب الصلاة: باب رد السلام فى الصلاة ، أبو داود: 924 ، نسائي: 19/3]
یہ تمام دلائل دوران نماز کلام کی حرمت کا واضح ثبوت ہیں اور اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ :
النهي يقتضى فساد المنهي عنه
”ممانعت منھی عنہ (جس کام سے روکا گیا ہے) کے فاسد ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔“ بالخصوص عبادات میں یہ قاعدہ متفق علیہ ہے۔
[إرشاد الفحول: 370/2 ، الإحكام للآمدى: 269/3]
(ابن حجرؒ ، شوکانیؒ ) اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے دوران نماز جان بوجھ کر کلام کیا اور وہ اصلاح نماز کا ارادہ نہیں رکھتا تو بلاشبہ اس کی نماز فاسد ہے۔
[فتح الباري: 90/3 ، نيل الأوطار: 158/2]
(علامہ عینیؒ ، ابن منذرؒ) اس کے قائل ہیں ۔
[عمدة القارى: 298/6 – 299 ، الأوسط لابن المنذر: 234/3]
◈ علماء نے بھول کر یا جہالت کی وجہ سے نماز میں کلام کے حکم میں اختلاف کیا ہے۔
(ابو حنیفہؒ) کلام جان بوجھ کر ہو ، بھول کر ہو یا جہالت کی بنا پر ہو نماز باطل کر دیتا ہے۔
امام ثوریؒ ، امام ابن مبارکؒ ، امام حماد بن ابی سلیمانؒ اور امام نخعیؒ وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے۔
(جمہور ، احمدؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ) بھول کر یا جہالت کی بنا پر کلام سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
امام ابن منذرؒ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ ، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ ، امام عطاءؒ ، امام حسنؒ اور امام قتادہؒ وغیرہ سے بھی یہی مذہب نقل کیا ہے۔
[الأوسط لابن المنذر: 236/3 ، نيل الأوطار: 158/2 ، شرح مسلم للنووي: 27/3 ، الأم: 236/1 ، شرح المهذب: 169/4 ، المبسوط: 170/1 ، الهداية: 61/1 ، سبل السلام: 319/1 ، المغنى: 444/2]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
(ابن حزمؒ) بھول کر یا جہالت سے کیا ہوا کلام محض سجدہ سہو لازم کر دیتا ہے جبکہ نماز مکمل ہو جاتی ہے۔
[المحلى بالآثار: 314/2]
(شوکانیؒ ) بھول کر کیا ہوا کلام اور جو بھولنے کے ہی حکم میں ہو ، نماز باطل نہیں کرتا ۔
[السيل الجرار: 234/1]
مزید اس موقف کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ذوالیدین میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر دو رکعتیں پڑھا دیں پھر ذوالیدین کے یاد کروانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے استفسار کیا کہ أصدق ذو اليدين؟ ”کیا ذوالیدین ٹھیک کہہ رہا ہے؟ “ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ دو رکعتیں ادا کر لیں اور آخر میں سہو کے سجدے کر لیے ۔
[بخارى: 1214 ، كتاب الأذان: باب هل يأخذ الإمام إذا شك بقول الناس ، مسلم: 573 ، موطا: 93/1 ، ترمذي: 399 ، أبو داود: 1008 ، ابن ماجة: 1214]
ثابت ہوا کہ بھول کر کلام کر لینے سے نماز باطل نہیں ہوتی ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت دوبارہ پڑھتے ۔
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
ان الله تجاوز عن أمتى الخطأ والنسيان ……
”اللہ تعالی نے میری امت سے خطا یا بھول کر کیے ہوئے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1662 ، كتاب الطلاق: باب طلاق المكره والناسي ، إرواء الغليل: 82 ، ابن ماجة: 2043]
➌ حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے (نماز میں ہی ) کہہ دیا: يرحمك الله اس پر لوگوں نے مجھے گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا ہائے! میری ماں مجھے گم پائے کیا بات ہے؟ تم مجھے (غصے سے) کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر مارنا شروع کر دیا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں (مجھے غصہ تو آیا ) لیکن میں خاموش ہو گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں میں نے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور نہ بعد میں کسی ایسے معلم کو دیکھا جو تعلیم دینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر ہو ، اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا نہ مارا اور نہ ہی سخت و کرخت گفتگو کی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إن هذه الصلاة لا يصلح فيها شيئ من كلام الناس إنما هو التسبيح والتكبير و قراءة القرآن ”بلاشبہ نماز میں انسانی گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں ۔ نماز میں تو صرف تسبیح ، تکبیر اور تلاوت قرآن ہونی چاہیے۔“
[مسلم: 537 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب تحريم الكلام فى الصلاة ، أبو داود: 931 ، نسائي: 14/3 ، دارمي: 353/1 ، بيهقي: 249/2]
اس حدیث سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہالت کی وجہ سے نماز میں اگر گفتگو ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیتے ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ اسے اس حکم سے آگاہ کرنے پر ہی اکتفاء کیا۔
◈ اصلاح نماز کے لیے کیا ہوا کلام آئمہ اربعہ کے نزدیک نماز باطل کر دیتا ہے البتہ امام اوزاعیؒ اور بعض مالکیہ نے اسے جائز کہا ہے۔
[تحفة الأحوذي: 455/2 ، عمدة القاري: 298/6]

غیر متعلقہ کام میں مشغول ہونے سے نماز باطل ہو جاتی ہے

مراد یہ ہے کہ انسان کوئی ایسا کام شروع کر دے جو نماز کا حصہ نہیں اور اس وقت انسان کو نمازی نہ کہا جا سکے مثلا لیٹ کر سو جانا ، بھاگنا شروع کر دینا ، کپڑے سینے لگ جانا ، کسی چیز کی طرف طویل مدت دیکھتے رہنا ، بوجھ اٹھا لینا ، یا کھانا پینا وغیرہ یقیناً ایسے شخص کو کوئی بھی نمازی شمار نہیں کرتا۔
ایسا عمل کثیر جو نماز کو باطل کر دیتا ہے اس میں علماء و مجتہدین نے بہت اختلاف کیا ہے۔
[تفصيل كے ليے ديكهيے: الفقه الإسلامي وأدلته: 1031/2 – 1034]
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ بے شک نماز منعقد ہونے کے بعد فاسد نہیں ہوتی ، الا کہ کوئی ایسا فاسد کر دینے والا عمل کر لیا جائے جس کے مفسد ہونے کی شریعت نے خبر دے دی ہو ، مثلا وضوء کا ٹوٹ جانا ، جان بوجھ کر لوگوں سے کلام کرنا ، یا ثابت ارکانِ نماز میں سے عمدا کسی رکن کو چھوڑ دینا وغیرہ ۔
[السيل الجرار: 235/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1