نماز با جماعت کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

نماز با جماعت ادا کرنا

مسجدوں میں کیوں نہ مسلم کو ملے تسکین دل
کوچه محبوب آخر کوچه محبوب ہے

● نماز با جماعت کی اہمیت :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ‎﴿٤٣﴾ (البقرة : ٤٣)
’’نماز قائم کرو، اور زکوۃ ادا کرو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“

سلف صالحین اور مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت نماز با جماعت کے متعلق ہے۔

باجماعت نماز ادا کرنا ہر اس شخص پر واجب ہے، جو قادر ہو اور اذان کی آواز سنتا ہو۔ چنانچه شافع محشر، سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے :
«من سمع النداء فلم يأته ، فلا صلاة له ، إلا من عذر»
’’جو شخص اذان سنے اور مسجد میں نہ آئے تو اس شخص کی نماز ہی نہیں ہوتی، الا یہ کہ کوئی (شرعی) عذر ہو۔“
مسند ابو یعلی : ٢٨١/٢، رقم : ٢٤٢٦- طبع دار الفكر ، بيروت.

’’سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا کہ اس عذر سے مراد خوف، یا بیماری ہے۔‘‘
سنن ابن ماجہ، كتاب المساجد والجماعات، باب التغليظ في التخلف عن الجماعة، رقم: ٧٩٣- سنن دار قطنی : ٤۲۰/۱ طبرانی کبیر، رقم: ١٢٢٦٥

سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا، اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میں ایک نابینا آدمی ہوں، اور مجھے مسجد تک لے جانے والا کوئی شخص نہیں ہے، تو کیا آپ مجھے گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا : کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا : جی ہاں! ضرور سنتا ہوں، پس خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا : تو پھر اللہ کے داعی کی آواز پر لبیک کہو، یعنی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے ضرور جاؤ۔
صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب يجب اينان المسجد على من سمع النداء، رقم: ٦٥٣.

اور بعض روایات کے الفاظ ہیں:
«ما أجد لك رخصة»
’’میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا۔“
سنن ابن ماجہ، كتاب المساجد والجماعات، رقم: ۷۹۲- سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، باب التشديد في ترك الجماعة، رقم: ٥٥٢- مسند أحمد: ٤٢٣/٣

امام بخاریؒ نے اپنی ”صحیح، کتاب الصلاة‘‘ میں باب قائم کیا ہے : «باب وجوب صلاة الجماعة» ’’باب نماز باجماعت پڑھنا فرض ہے۔“

اور اس کے بعد بطور تمہید امام حسن بصریؒ کا قول ذکر کیا ہے :
«إن منعته أمه عن العشاء فى الجماعة شفقة لم يطعها»
’’کہ اگر کسی شخص کی ماں اس کو محبت کی بناء پر عشاء کی نماز با جماعت کے لیے مسجد میں جانے سے روک دے تو اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ ماں کی بات نہ مانے۔“

اور پھر سیدنا ابو ہریرہؓ کی نبی آخر الزماں ﷺ سے نقل کردہ روایت ذکر کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’میں نے ارادہ کیا کہ میں یہ حکم دوں کہ نماز کی جماعت کھڑی کی جائے، پھر میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں چند لوگوں کو لے کر، جن کے ساتھ لکڑیوں کا بنڈل ہو ایسے لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے، پھر میں انہیں ان کے گھروں سمیت آگ لگا کر خاکستر کردوں۔‘‘
صحیح بخارى، كتاب الأذان، باب وجوب صلاة الجماعة، رقم: ٦٤٤

مولانا داؤد رازؒ لکھتے ہیں : اس حدیث سے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا جس قدر ضروری معلوم ہوتا ہے وہ الفاظ سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے تارکین جماعت کے لیے ان کے گھروں کو آگ لگانے تک کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی لیے جن علماء نے نماز کو جماعت کے ساتھ فرض قرار دیا ہے، یہ حدیث ان کی اہم دلیل ہے۔ علامہ شوکانیؒ فرماتے ہیں :
«والحديث استدل به القائلون بوجوب صلوة الجماعة لأنها لو كانت سنة لم يهدد تاركها بالتحريق»
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو نماز با جماعت کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ محض سنت ہوتی تو اس کے چھوڑنے والے کو آگ میں جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی۔
صحیح بخاری از داؤد راز دهلوی : ۱/۱۱۰

● نماز با جماعت کی فضیلت :

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«صلاة الجماعة تفضل صلاة القد بسبع وعشرين درجة»
’’کہ باجماعت نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس (۲۷) درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، رقم : ٦٤٥

حافظ ابن قیم الجوزیہؒ فرماتے ہیں :
«فإن الصلوة فى المسجد من أكبر شعائر الدين و علامات»
’’مسجد میں نماز پڑھنا دین کے شعائر اور علامات میں سے سب سے بڑھ کر ہے۔“
كتاب الصلوة، ص: ١٠٥

● نماز با جماعت کے شوقین سلف صالحین کے نمونے :

سیدنا ابن مسیب فرماتے ہیں کہ پچھلے چالیس سالوں سے میری جماعت فوت نہیں ہوئی۔
جلية الأولياء : ١٦٢/٢ – سير أعلام النبلاء: ٢٢١/٤

جناب وکیع بن الجراح نے اعمش سے بیان کیا ہے، کہ وہ اعمش ستر (۷۰) سال کے تھے، اور کبھی ان کی تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی تھی۔
سیر أعلام النبلاء: ٢٢٨/٦

جناب اسودؒ سے جب جماعت فوت ہو جاتی تو آپ کسی دوسری مسجد میں تشریف لے جاتے۔ جہاں نماز با جماعت ملنے کا امکان ہوتا۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة

سیدنا انس بن مالک ؓ ایک ایسی مسجد میں حاضر ہوئے جہاں نماز ہو چکی تھی۔ آپ نے پھر اذان دی، اقامت کہی اور باجماعت نماز پڑھی۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة.

محمد بن المبارک الصوری فرماتے ہیں : جب سعید بن عبدالعزیز کی نماز با جماعت فوت ہو جاتی تھی، تو رونے لگتے تھے۔
سیر أعلام النبلاء: ٣٤/٨

اور امام نافعؒ سے منقول ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے جب عشاء کی جماعت فوت ہو جاتی تھی، تو وہ اپنی باقی رات کو زندہ کرتے تھے یعنی باقی رات اللہ
تعالیٰ کی عبادت واطاعت میں گزارتے تھے۔
سير أعلام النبلاء: ٣/ ٢١٥ – حلية الأولياء: ٣٠٣/١.

بشر بن الحسن البصریؒ کے متعلق آتا ہے کہ انہیں ’’صفی“ کہا جاتا تھا، اور ان کا نام صفی صرف اس لیے رکھا گیا تھا کہ انہوں نے بصرہ کی ایک مسجد میں پچاس (۵۰) سال تک پہلی صف میں بالالتزام نماز ادا کی۔
تهذيب الكمال: ۱۱۳/۲ – تهذيب التهذيب : ۱/ ۲۸۲

● ترک جماعت پر وعید :

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں مؤذن کو اذان کا حکم دوں، پھر ایک آدمی کو جماعت کرانے کا کہوں، پھر آگ کا ایک شعلہ لے کر ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو نماز پڑھنے کے لیے نہ نکلے ہوں۔‘‘
صحیح بخاری ، كتاب الأذان ، رقم : ٦٠٧ – صحيح مسلم، رقم: ٦٥١.

اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’کسی بستی یا جنگل میں صرف تین مسلمان ہوں اور نماز با جماعت کا اہتمام نہ کریں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، تم پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا لازم ہے، کیونکہ بھیڑیا تنہا بکری کو کھا جاتا ہے۔“
سنن نسائى ، كتاب الامامة ، رقم : ٨٤٨ سنن ابو داؤد، رقم : ٥٤٧۔

● نماز کے لیے جانے کے آداب :

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’جب تم اقامت کی آواز سنو تو نماز کے لیے سکون اور وقار کے ساتھ چل کر آؤ، جلدی نہ کرو اور جتنی نماز جماعت سے پالو، وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے بعد میں پوری کر لو۔‘‘
صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم : ٦٣٦- صحيح مسلم، رقم : ٣،٣

یاد رکھیے ! بندہ جب اپنے گھر سے مسجد کے ارادے سے نکلتا ہے تو وہ اس اللہ تعالیٰ کے دربار میں جاتا ہے، جو زبر دست ہے، یکتا ہے، غالب ہے، طاقت ور ہے، بخشش کرنے والا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، چاہے کہیں بھی ہو، رائی کا ایک دانہ اس سے مخفی ہے نہ اس سے چھوٹا نہ بڑا، ساتوں زمین میں نہ ساتوں آسمان میں، نہ ساتوں سمندروں میں، نہ بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر، وہ اللہ کے گھر آتا ہے، اور اللہ کا قصد کرتا ہے، اور اللہ کی طرف رخ کرتا ہے اور اس کے ایسے گھر کی طرف جس کے بارے میں حکم ہے :
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ‎﴿٣٦﴾‏ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ ‎﴿٣٧﴾‏ (النور: ٣٧،٣٦)
’’جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذان دیا ہے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں، جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کی یاد اور اقامت نماز اور ادائے زکوۃ سے غافل نہیں کر دیتی، وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی۔‘‘

اس لیے جب آپ گھر سے نکلیں تو غیر معمولی سنجیدگی اور ادب کا مظاہرہ کریں اور دنیاوی حالات اور اس کی مشغولیوں سے کٹ کر صرف اللہ کے لیے یکسو ہو کر نکلیں، سکینت اور وقار کے ساتھ نکلیں کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں اسی بات کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے رغبت و خوف، مسرت و حسرت اور خشوع و خضوع اور پستی و اخبات یعنی تذلیل کے جذبات ہمارے اوپر طاری ہوں، اس لیے کہ جتنی زیادہ پستی اور ذلت ، خشوع و دناءت یعنی تذلل اور اخبات وانابت کا مظاہرہ ہوگا اتنی ہی ہماری نماز پاکیزہ ہوگی، اسی قدر اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے قبولیت حاصل ہو گی، بندے کا مقام اسی حیثیت سے بلند ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنا ہی قرب حاصل ہوگا اور اگر وہ تکبر کرے گا تو اللہ اسے توڑ دے گا، اس کا عمل رد کر دے گا اور متکبر کا کوئی عمل اللہ قبول نہیں کرتا۔
نماز، تالیف امام احمد بن حنبل تحقیق و تقدیم شیخ محمد حامد الفقی، مقدمه اصلی نمبر ۱۰۲۰۱۰

❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
”جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد کی طرف جائے تو وہ ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں نہ ڈالے، کیونکہ وہ نماز میں ہوتا ہے۔‘‘
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٥٦٢ سنن ترمذی، رقم : ٣٨٦۔

❀ اور رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے :
’’کہ جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعات ضرور پڑھ لے۔‘‘
صحیح بخاری ، کتاب الصلاة، رقم : ٤٤٤

❀ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو اسے منع نہ کرے۔‘‘
سنن دارمی، رقم: ١٣٤ صحیح بخاری، رقم: ٥۲۳۸ صحیح مسلم، رقم: ۹۸۷

❀ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے منع نہ کرو، جب کہ وہ مسجد میں جائیں تو زیب و زینت اختیار کیے ہوئے نہ ہوں۔‘‘
سنن دارمی، رقم: ۱۳۱۵ سنن ابوداؤد، رقم : ۰۶۵

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!