سوال :
نماز اشراق کسے کہتے ہیں اور اس کا صحیح وقت کون سا ہے ؟
جواب :
اشراق کے معنی ”طلوع آفتاب“ یعنی جب آفتاب طلوع ہو کر ذرا بلند ہو تو اس وقت نوافل ادا کرنا نمازِ اشراق کہلاتا ہے۔ قاسم شیبانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
ان زيد بن ارقم راي قوما يصلون من الضحي فقال اما قد علموا ان الصلاة فى غير هذه الساعة افضل ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : صلاة الاوابين حين ترمض الفصال [مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها : باب صلاة الاوابين حين ترمض الفصال 748 بيهقي 49/3 ]
” سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو صلاۃ الضحٰی پڑھتے دیکھا تو فرمایا : ”کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ نماز اس وقت کے علاوہ وقت میں افضل ہے ؟ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : صلاۃ الاوّابین اس وقت ہے جب شدتِ گرمی کی وجہ سے اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلتے ہیں۔“
ایک دوسری حدیث میں ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم علٰي اهل قباء وهم يصلون الضحٰي فقال صلاة الاوابين اذا رمضت الفصال من الضحٰي [أحمد 366/4، بيهقي 490/3، طبراني كبير234/5، صحيح ابن خزيمة 1227، شرح السنة 1145/4، ابن أبى شيبة 406/2، إرواء الغليل 220/2 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل قبا پر نکلے، وہ صلاۃ الضحیٰ پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : صلاۃ الاوّابین اس وقت ہے جب دھوپ کی شدت کی وجہ سے اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلتے ہیں۔“
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ”صلاۃ الضحٰی“ یعنی نماز اشراق اوّل وقت کی بجائے اچھی طرح دھوپ میں پڑھنا افضل ہے۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
”یہ وقت نصف النہار سے کچھ پہلے ہے۔“ [منة المنعم 471/1 ]
اور اسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ”صلاۃ الاوّابین“ قرار دیا ہے۔ اوّابین، اوّاب کی جمع ہے اور اوّاب وہ شخص ہے جو اخلاص اور عملِ صالح کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی کے لیے اللہ کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا ہوتا ہے۔ نصف النہار سے کچھ دیر پہلے عام طور پر لوگوں کے لیے استراحت وآرام کا وقت ہوتا ہے اور اواب شخص راحت و سکون کو پسِ پشت ڈال کر اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے، اس لیے یہ وقت صلاۃ الضحیٰ کا افضل وقت قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يحافظ على الصلاة الضحٰي الا اواب قال وهى صلاة الاوابين [ صحيح ابن خزيمة 1224، مستدرك حاكم 314/1، سلسلة الأحاديث الصحيحة 1994، 703، مجمع الزوائد 239/2، طبراني أوسط 3877 ]
”صلاۃ الضحیٰ کی اداب ہی حافظت کرتا ہے۔ “ اور فرمایا”یہی صلاۃ الاوابین ہے۔ “
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ صلاۃ الضحیٰ کا دوسرا نام صلاۃ الاوّابین ہے۔
عام اہلِ علم نے نماز اشراق کو صلاۃ الضحیٰ ہی قرار دیا ہے البتہ بعض نے فرق کیا ہے۔
مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے : ”صلاۃ الاشراق ضحوہ صغریٰ میں اور صلاۃ الضحیٰ ضحوہ کبریٰ میں ادا کی جاتی ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن احادیث میں نماز اشراق کی ترغیب دی ہے ان میں ہے کہ فجر کی نماز کے بعد بیٹھ کر انسان انتظار کرتا رہے حتیٰ کہ سورج نکل آئے پھر دو رکعت پڑھے۔
ملا علی قاری نے کہا ہے کہ تحقیق یہ ہے کہ صلاۃ الضحیٰ کا اوّل وقت وہ ہے جب کراہت کا وقت چلا جائے اور اس کا آخری وقت زوال سے پہلے کا ہے، لہٰذا جو اوّل وقت میں نماز ادا ہوئی اسے صلاۃ الاشراق اور جو اس کے آخری وقت تک ادا ہوئی اسے صلاۃ الضحیٰ کا نام دیا گیا ہے۔
ایک روایت میں ہے :
”جب سورج اپنے مطلع سے نکل کر ایک دو نیزوں کی مقدار تک بلند ہو جاتا ہے جیسے سورج ڈوبنے سے پہلے نماز عصر کی مقدار تک ہوتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے پھر مہلت رکھتے یہاں تک کہ جب دھوپ تیز ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتات نماز پڑھتے۔“ [نسائي فى السنن الكبريٰ 178/1 ]
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ صلاۃ الضحیٰ اور صلاۃ الاشراق میں فرق اس لحاظ سے ہے کہ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد نماز ادا کریں تو اسے صلاۃ الاشراق کہتے ہیں اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو، دھوپ کی شدت ہو جائے اور زوال سے قبل نماز پڑھیں تو یہ صلاۃ الضحیٰ ہے۔ والله اعلم
نماز مغرب کے بعد چھ رکعات کی ادائیگی کو صلاۃ الاوّابین قرار دینا ثابت نہیں۔ جیسا کہ بعض احناف کا یہ موقف ہے بلکہ یہ بات سابقہ صحیح احادیث کے خلاف ہے کیونکہ ان میں ”صلاۃ الضحیٰ“ ہی کو ” صلاہ الاوّابین“ کہا گیا ہے۔