نمازی کے سترے کا بیان
لغوی و اصطلاحی تعریف: لفظ ”سترہ“ لغت میں” اوٹ یا پردہ “ کے معنی میں مستعمل ہے اور اصطلاحی و شرعی اعتبار سے سترہ کا اطلاق ”ہر اس چیز پر ہوتا ہے جسے انسان بوقت نماز اپنی سجدہ گاہ کے سامنے نصب کرے“ مثلا لکڑی، نیزہ، دیوار، ستون، میز اور گاڑی وغیرہ۔
سترے کا شرعی حکم
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تصل إلا إلى سترة
[ابن خزيمة 800 ، مسلم 260 ، حاكم 251/1 ، بيهقي 268/2]
” صرف سترہ کی جانب ہی نماز پڑھو۔“
➋ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا صلى أحدكم فليصل إلى سترة وليدن منها
[حسن : صحيح أبو داود 246 ، كتاب الصلاة : باب ما يـومـر المصلى أن يدرأ عن الممر بين يديه ، أبو داود 698 ، ابن ماجة 954 ، بيهقي 267/2]
” جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترے کی طرف نماز پڑھے اور اس کے قریب ہو( کر کھڑا ہو ) ۔“
➌ حضرت سبرہ بن معبد جھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليستر أحدكم فى الصلاة ولو بسهم
[صحيح : احمد 404/3 ، أبو يعلى 239/2 ، المجموع 61/2 ، امام بیشميؒ بيان كرتے هيں كه احمد كي اس حديث كے رجال صحيح كے رجال هيں۔ شيخ احمد شاكرؒ كہتے هيں كه مسند احمد ميں يه حديث دو صحيح سندوں كے ساته موجود هے۔ التعليق على الترمذى 158/2 ، شيخ محمد صبحي حلاق نے اسے حسن كها هے۔ التعليق على سبل السلام 329/1]
”تمہیں نماز میں سترہ ضرور قائم کرنا چاہیے خواہ ایک تیر ہی ہو۔“
➍ سترہ قائم کرنے اور اس کے قریب ہونے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ :
لا يقطع الشيطان عليه صلاته
[صحيح : صحيح أبو داود 643 ، كتاب الصلاة : باب الدنو من السترة ، أبو داود 695 ، نسائي 62/2 أحمد 2/4 ، حاكم 251/1 ، ابن خزيمة 803]
” کہیں شیطان انسان کی نماز نہ کاٹ ڈالے ۔“
(شوکانیؒ ) سترہ رکھنا واجب ہے۔
[نيل الأوطار 198/2]
ایک دوسری جگہ رقمطراز ہیں کہ: حکم کا ظاہر تو وجوب ہی ہے لیکن اگر کوئی ایسا قرینہ مل جائے جوان اوامر کو وجوب سے استحباب کی طرف منتقل کر دے تو اس کو ترجیح ہوگی ۔
[السيل الجرار 176/1]
(جمہور ) سترہ رکھنا مستحب ہے۔
[سبل السلام 329/1]
ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ورسول الله يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار
[بخاري : 493]
منی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دیوار کے علاوہ کسی اور جانب رخ کر کے نماز پڑھا رہے تھے ۔
اس حدیث پر امام بخاریؒ نے یہ باب قائم کیا ہے :
ستره الإمام سترة لمن خلفه
[المرعاة : 515/1]
” امام کا سترہ ہی اس شخص کا سترہ ہے جو اس کے پیچھے کھڑا ہے ۔“
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دیوار کے علاوہ کوئی اور چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے موجود تھی ۔ جیسا کہ عبید اللہ مبارکپوریؒ نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
(سید سابقؒ) نمازی کے لیے سترہ رکھنا مستحب ہے۔
[فقه السنة 224/1]
(ابن حزمؒ ) سترہ رکھنا واجب ہے۔
[المحلى 8/4-15]
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تمام المنة ص/ 300]
سترے کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے سترے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مثل مؤخرة الرحل
[مسلم 500 ، كتاب الصلاة : باب سترة المصلي ، نسائي 62/2]
”اونٹ کے پالان کے پچھلے حصے کی لمبائی کے برابر ۔“
سترہ کسی باریک چیز کو بھی بنایا جاسکتا ہے جیسا کہ ابھی پیچھے ایک حدیث میں گزرا ہے :
ولو بسهم
[بخارى : 494]
” خواه تیر کا ستره بنالو۔“
اور دیگر روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیزے کو سترہ بنالیا کرتے تھے۔
علاوہ ازیں کسی جانور ( یعنی سواری ) وغیرہ کو سترہ بنانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
[صحيح : صحيح أبو داود 641 ، كتاب الصلاة : باب الصلاة إلى الراحلة ، أبو داود 692]
سترے اور نمازی کے مابین فاصلہ
حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیوار کے مابین ایک بکری گزرنے کا فاصلہ ہوتا تھا۔ “
[بخاري 496 ، كتاب الصلاة : باب قدركم ينبغى أن يكون بين المصلى والسترة ، مسلم 508 ، أبو داود 696 ، ابن خزيمة 804]
ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں داخل ہو کر نماز پڑھی تو دیوار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان :
ثلاثة ذراعه
[أحمد 13/6 ، بخاري 506]
” تین بازؤوں کا فاصلہ تھا۔“
فضا اور مسجد دونوں جگہ سترہ ضروری ہے
گذشتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سترہ رکھنا صرف فضاء میں ہی مشروع نہیں ہے بلکہ احادیث میں حکم عام ہے جو فضاء اور مسجد وغیرہ سب جگہوں کو شامل ہے ۔
[السيل الجرار 176/1 ، نيل الأوطار 203/2]
سترے کو کچھ دائیں یا بائیں جانب رکھنا
کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں نیز حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں وہ بیان کرتے ہیں کہ : ” میں نے جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی ٹہنی یا ستون یا درخت کی جانب نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسی طرح دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بالکل اپنے سامنے نہیں بلکہ قدرے بائیں یا دائیں جانب کیے ہوتے تھے ۔“ وہ ضعیف و نا قابل حجت ہے۔
[ضعيف : ضعيف أبو داود 136 ، كتاب الصلاة : باب إذا صلى إلى سارية أو نحوها أين يجعلها منه ، أبو داود 693 ، المشكاة 783]
مقتدی کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے
جیسا کہ امام بخاریؒ نے یہ باب قائم کیا ہے کہ :
سترة الإمام سترة لمن خلفه
”امام کا سترہ ہی مقتدی کا سترہ ہے۔“
اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس زمانے میں میں بالغ ہونے ہی والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منی میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیوار نہ تھی :
فـــــرت بـيـن يــدي بـعـض الصف ” میں صف کے بعض حصے سے گزر کر سواری سے اترا اور میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہوگيا“ ولم ينكر ذلك على أحد ” کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا ۔“
[بخاري : 1857 ، 493 ، كتاب الصلاة ، مسلم 504]
اگر کوئی سترے کے آگے سے گزر جائے
تو اس سے نماز کو کوئی نقصان نہیں ہوگا جیسا کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مثل مؤخرة الرحل يكون بين يدى أحدكم ثم لا يضره ما مر بين يديه
[أحمد 161/1 ، مسلم 499 ، كتاب الصلاة : باب سترة المصلى ، أبو داود 685 ، ترمذي 335 ابن ماجة 940]
” پالان کے پچھلے حصے کے برابر کوئی چیز تم میں سے کسی ایک کے سامنے موجود ہو تو پھر جو بھی اس کے سامنے سے گزر جائے اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔“
سترہ نہ ہو تو سامنے خط کھینچ لینا
جس روایت میں اس عمل کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے۔ اس روایت میں یہ لفظ ہیں :
فـان لـم يـكـن مـعـه عصا فليخط خطا
[ضعيف : ضعيف أبو داود 134 ، كتاب الصلاة : باب الخط إذا لم يجد عصا، ضعيف الجامع 569 ، ضعيف ابن ماجة 196 ، أبو داود 689 ، ابن ماجة 943 ، بيهقى 270/2 ، ابن خزيمة 811 ، عبدالرزاق 2286 ، حميدي 993 ، أحمد 249/2 ، امام بغويؒ نے اسے ضعيف كہا هے۔ امام ابن صلاحؒ نے اس حديث كو مضطرب كے ليے بطور مثال پيش كيا هے۔ تلخيص الحبير 518/1 ، شيخ محمد صجي حلاق نے اسے ضعيف كها هے۔ التـعـلـيـق عـلـى السيل الحرار 393/1 ، امام سيوطيؒ فرماتے هيں كه امام ابن عينيهؒ سے اس حديث كي تضعيف بيان كي گئي هے اور اسي طرح امام شافعيؒ ، امام بهقيؒ اور امام نوويؒ نے بهي اسے ضعيف كها هے۔ تدريب الراوى 264/1 ، البته حافظ ابن حجرؒ نے اسے حسن كها هے۔ بلوغ المرام 185]
”اگر نمازی کے پاس چھڑی نہ ہو تو خط کھینچ لے ۔“
نمازی کے آگے سے گزرنا ممنوع ہے
حضرت ابو جھیم بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لـو يـعـلـم الـمـار بين يدى المصلى ماذا عليه من الإثم لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه
[بخاري 510 ، كتاب الصلاة : باب إثم المار بين يدى المصلى ، مسلم 507 ، أبو داود 701 ، ترمذي 336 ، نسائي 66/2 ، ابن ماجة 945 ، ابن خزيمة 8/3]
” اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کام کا کتنا گناہ ہے تو اسے نمازی کے آگے سے گزرنے کے مقابلے میں چالیس (سال) تک وہاں کھڑا رہنا زیادہ پسند ہو۔“ مسند بزار میں ایک دوسری سند سے ہے کہ : اربعين خريفا ” چالیس خزاں“ ( تک کھڑا رہنا پسند ہو)۔
(شوکانیؒ) یہ حدیث دلیل ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا ایسے کبیرہ گناہوں سے ہے جو آگ کو واجب کرنے والے ہیں۔
[نيل الأوطار 206/2]
(نوویؒ) اس حدیث میں ( نمازی کے سامنے سے) گزرنے کی حرمت ہے۔
[شرح مسلم 465/3]
(امیر صنعانیؒ ) یہ حدیث نمازی کے سامنے سے گزرنے کی حرمت کی دلیل ہے۔
[سبل السلام 327/1]
یاد رہے کہ یہ حرمت اس وقت ہے کہ جب کوئی نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنا چاہے اور اگر کوئی سترے کے پیچھے سے گزرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
نمازی کو چاہیے کہ گزرنے والے کو روکے
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی سترہ قائم کر کے نماز پڑھنے لگے۔“
فاراد أحد أن يجتاز بين يديه فليدفعه فإن أبى فليقاتله
[بخاري 509 ، كتاب الصلاة : باب يرد المصلي من مربين يديه ، مسلم 505 ، أبو داود 700 ، نسائي 66/2 ، ابن ماجة 954 ، أحمد 63/3]
” اور کوئی آدمی اس کے سامنے (یعنی سترے اور نمازی کے درمیانی فاصلہ ) سے گزرنے لگے تو نمازی کو چاہیے کہ اسے روکنے کی کوشش کرے، اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
(نوویؒ) علماء میں سے کسی نے بھی اسے ( یعنی روکنے کو ) واجب کہا ہو، میرے علم میں نہیں ہے بلکہ ہمارے اصحاب اور دیگر علماء نے صراحت کی ہے کہ یہ عمل مستحب و غیر واجب ہے۔
[شرح مسلم 464/2]
( ابن حجرؒ ) بعض اہل ظاہرنے وجوب کی بھی صراحت کی ہے۔
[فتح البارى 167/2]
اگر گدھا ، حائضہ عورت اور کالا کتا نمازی کے سامنے سے گزر جائیں
اور سترہ نہ رکھا ہو تو نماز باطل ہو جائے گی جیسا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بقطع صلاة المرء المسلم إذا لم يكن بين يديه مثل مؤخرة الرحل المرأة والحمار والكلب الأسود
” مسلمان مرد کی نماز کو جبکہ اس کے سامنے پالان کے پچھلے حصہ کے برابر سترہ نہ ہو عورت ، گدھا اور کالا کتا توڑ دیتا ہے۔“ اور سنن ابی داود کی روایت میں عورت کے لفظ کو حائضہ عورت کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ المرأة الحائض
[مسلم 689 ، كتاب الصلاة : باب قدر ما يستر المصلى ، أبو داود 703 ، ترمذي 338 ، ابن ماجة 949 ، 952 ، صحيح أبو داود 651]
واضح رہے کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے کہ : لا بقطع الصلاة شيئی ” نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی ۔“ وہ ضعیف ہے لہذا قابل حجت نہیں ۔
[ضعيف : ضعيف أبو داود 144 ، 143 ، كتاب الصلاة : باب من قال لا يقطع الصلاة شيء ، ضعيف الجامع 6366 ، المشكاة 785 ، أبو داود 720 ، 719]
اگر گذشتہ اشیاء کے علاوہ کوئی آدمی وغیرہ نمازی کے سامنے سے گزر جائے
تو نماز باطل نہیں ہوتی کیونکہ اس کے مبطل ہونے کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں جیسا کہ شیخ ابن بازؒ نے یہی موقف اختیار کرتے ہوئے اسے ثابت کیا ہے۔
[الفتاوى الإسلامية 243/1 – 244]