امام کا نماز میں اونچی آواز سے تکبیریں کہنا اور مقتدیوں کا دل میں کہنا – احادیث صحیحہ اور اجماع کی روشنی میں
سوال کا پس منظر
ایک دیوبندی تبلیغی (علی آفاق) نے لکھا:
"اگر جناب عمران صاحب نماز شروع کرنے کی تکبیر یعنی تکبیر تحریمہ ادا کرنے کا طریقہ حدیث سے بیان کر دیں کہ امام کس طرح ادا کرے، اونچی یا آہستہ، اور مقتدی کس طرح ادا کرے، اونچی یا آہستہ – بہر صورت حدیث بیان کریں۔ میں اسی وقت بھائی کا مسلک قرآن و حدیث اختیار کر لوں گا۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو بھائی عمران صاحب حنفیت اختیار کریں گے۔”
(دستخط: علی آفاق، مولانا، 2004ء)
سوال:
کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ امام نماز میں اونچی آواز سے تکبیریں کہے اور مقتدی دل میں یعنی سراً کہیں؟
سوال کنندہ: عمران بن تسلم خان، حضرو ضلع اٹک
جواب:
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اخبرنا ابو القاسم طلحة بن علي ابن الصقر وابوعبدالله محمد بن احمد بن ابي طاهر الدقاق ببغداد قالا:انبااحمد بن عثمان بن يحيٰ الادمي:حدثنا عباس بن محمد بن حاتم الدوري:حدثنا يونس بن محمد:حدثنا فليح وعن سعيد بن الحارث قال: اشتكى أبو هريرة – أو غاب – فصلى لنا أبو سعيد الخدري فجهر بالتكبير حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين قال: سمع الله لمن حمده، وحين رفع رأسه من السجود، وحين سجد، وحين قام من الركعتين، حتى قضى صلاته على ذلك، فلما صلى قيل له: اختلف الناس على صلاتك. فخرج فقام على المنبر فقال: يا أيها الناس والله ما أبالي اختلفت صلاتكم أو لم تختلف. هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي.”
(السنن الکبری للبیہقی، ج2، ص18، باب جہر الامام بالتکبیر)
(صحیح بخاری، ح825)
ترجمہ:
سعید بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیمار یا غیر حاضر تھے تو ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور تکبیر تحریمہ، رکوع، سمع اللہ لمن حمدہ، سجدے، سجدے سے اٹھنے، دوسری بار سجدے اور دو رکعتوں کے بعد اٹھنے کی تمام تکبیریں اونچی آواز سے کہیں۔ پھر فرمایا: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح نماز پڑھاتے دیکھا۔”
سند کی تحقیق
روایوں کا مختصر تعارف:
◈ ابوالقاسم طلحہ بن علی بن صقر: "كان ثقة” (تاریخ بغداد 9/353)
◈ ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ابی طاہر الدقاق: "كان ثقة” (تاریخ بغداد 1/353، 354، ت 281)
◈ احمد بن عثمان بن یحیی الادمی: "وكان ثقة حسن الحديث” (تاریخ بغداد 4/299)
◈ عباس بن محمد بن حاتم الدوری: "ثقة حافظ” (تقریب التہذیب: 3189)
◈ یونس بن محمد المؤدب: "ثقة ثبت” (تقریب التہذیب: 3189)
◈ فلیح بن سلیمان: بخاری و مسلم کے راوی؛ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وحدیثہ فی رتبۃ الحسن”
(تذکرہ الحفاظ 1/224، آثار السنن ح604، المستدرک للحاکم: 4407 ح8244)
◈ سعید بن الحارث: "ثقہ” (التقریب: 2280)
نتیجہ:
یہ سند "حسن لذاتہ” ہے اور روایت قابلِ قبول ہے۔
مقتدیوں کا دل میں تکبیریں کہنا
1. اجماعِ اُمت کا ثبوت
تمام مکاتبِ فکر کا اجماع ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی دل میں، سراً اور آہستہ تکبیریں کہیں گے۔
مولانا نذیر احمد رحمانی رحمہ اللہ (متوفی 1065ھ) فرماتے ہیں:
"اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے کہ تکبیراتِ انتقال امام زور سے کہتا ہے تو مقتدی بھی اس کی اتباع میں زور سے کہیں۔”
(نوافل کی جماعت کے ساتھ فرض نماز کا حکم، ص84، مطبوعہ ادارۃ العلوم الاثریہ، فیصل آباد)
2. حدیث زید بن ارقم رضی اللہ عنہ:
"كُنَا نَتَكَلَّمُ في الصَّلاةِ يُكَلِّم الرَّجُلُ مِنَّا صَاحبَهُ وهُوَ إِلى جَنْبِهِ في الصلاةِ حَتى نَزَلَتْ ﴿وقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾ فأُمِرْنَا بالسُّكوتِ ونُهيِنَا عَنِ الْكَلام”
(صحیح بخاری: 4534، صحیح مسلم: 539)
ترجمہ:
ہم نماز میں باتیں کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ آیت "وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ” نازل ہوئی، تو ہمیں سکوت کا حکم دے دیا گیا۔
استثناء کی تین حالتیں:
◈ مکبر (اگر مقتدی ہو) بلند آواز سے تکبیریں کہے گا۔
◈ اگر امام بھولے تو مقتدی "سبحان اللہ” کہے گا۔ (دلیل: صحیح بخاری: 1234، صحیح مسلم: 421)
◈ اگر امام قراءت میں بھول جائے تو مقتدی بلند آواز سے لقمہ دے گا۔
(دلیل: سنن ابی داؤد: 907، جزء القراء للبخاری بتحقیقی: 194، سند حسن)
3. حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا:
"وقعد النبي – صلى الله عليه وسلم إلى جنبه وأبو بكر يسمع الناس التكبير”
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان(ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) لوگوں کو تکبیر سناتے تھے۔
(صحیح البخاری: 712، صحیح مسلم: 418/96)
استدلال:
حالتِ ضرورت میں مکبر مقرر کیا جا سکتا ہے۔
باقی مقتدی بغیر آواز کے، دل میں تکبیریں کہتے ہیں۔ ورنہ مکبر کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی۔
4. روایت عکرمہ رحمہ اللہ:
"میں نے مکہ میں ایک شیخ کے پیچھے نماز پڑھی، انھوں نے 22 تکبیریں کہیں۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا تو فرمایا:
"سنة ابي القاسم صلي الله عليه وسلم”
یہ ابو القاسم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت ہے
(صحیح البخاری: 788)
استدلال:
یہ 22 تکبیریں (تکبیر تحریمہ، رکوع و سجدہ کی تکبیریں، اور قعدہ کے بعد اٹھنے کی) امام کے اونچی آواز میں کہنے کا نص صریح ثبوت ہیں، اور مقتدیوں کے سراً کہنے کا اشارہ بھی دیتی ہیں۔
نتیجہ
◈ امام کو جماعت میں اونچی آواز سے تکبیریں کہنا ثابت ہے۔
◈ مقتدی حضرات کو دل میں، آہستہ آواز سے تکبیریں کہنا ثابت ہے۔
یہ حکم قرآن، سنتِ صحیحہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت شدہ ہے۔
واللہ أعلم بالصواب