نمازِ جماعت میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کی قراءت کے دلائل و احکام – 5 واضح دلائل کے ساتھ
ماخوذ: فتاوی علمیہ جلد 1 – کتاب الصلاة – صفحہ 324

سورۃ الفاتحہ خلف الامام

"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ”
(سورۃ الاعراف، آیت 204)

قرآن سننے کا حکم ہے جبکہ آپ احادیث سے ثابت کر رہے ہیں کہ قرآن کو خود بھی پڑھو۔ اس پر وضاحت سے جواب مطلوب ہے کہ آیا مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے؟ کیا یہ احادیث اس آیت کے خلاف نہیں؟ اور کیا حدیث جو کہ "ظنی” ہے، قرآن کے "قطعی” حکم کا مقابلہ کر سکتی ہے؟

احادیث کو ظنی کہنا درست نہیں

صحیح احادیث کو ظنی کہنا غلط ہے۔
صحیح حدیث بھی قطعی الثبوت اور حتمی ہوتی ہے۔
حوالہ: اختصار علوم الحدیث لابن کثیر، ص34

قرآن و حدیث دونوں حجت ہیں

صحیح حدیث بھی قرآن کی طرح شرعی حجت ہے۔

جب دونوں حجت ہوں تو:
◈ حدیث حدیث کی تشریح کرتی ہے
◈ قرآن قرآن کی تشریح کرتا ہے
◈ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تخصیص بھی کرتے ہیں

آئمہ اربعہ کے نزدیک قرآن کی تخصیص حدیث سے کرنا جائز ہے۔
حوالہ: الاحکام للآمدی، جلد2، ص347

آیت کریمہ کی وضاحت

آیت:
"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ”
(سورۃ الاعراف، آیت 204)

اس آیت میں سورۃ فاتحہ کی ممانعت واضح طور پر بیان نہیں کی گئی۔

جبکہ فاتحہ خلف الامام والی احادیث میں سورۃ فاتحہ کی صراحت موجود ہے۔

اس لیے دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔

حدیث، اس آیت کی تخصیص کر رہی ہے۔

ایک اور قرآنی دلیل

آیت:
"فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ”

بعض علماء نے اس آیت سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ مقتدی پر بھی قراءت فرض ہے۔
حوالہ: نور الانوار، ص193
خلاصۃ الافکار شرح مختصر المنار، ص197

حنفیہ کا اصول اور اس پر تنقید

حنفیہ کا اصول:
آیات "وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ” اور "فَاقْرَءُوا” آپس میں متصادم ہو کر ساقط ہو گئیں۔

یہ اصول باطل ہے کیونکہ قرآن کی آیات باہم متصادم نہیں ہوتیں۔

"فاقرءوا” والی آیت پر حدیث سے تائید

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اقْرَءُوا” (تم پڑھو)
حوالہ: موطا امام مالک، جلد1، ص85، کتاب الصلوٰۃ، القراءۃ خلف الامام فیما لا یجھر بالقراۃ

یہ حکم جہری اور سری دونوں نمازوں پر لاگو ہوتا ہے۔

راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہری نمازوں میں بھی فاتحہ خلف الامام کا فتویٰ دیتے تھے۔

حوالہ جات: مسند ابی عوانہ، جلد2، ص38
مسند حمیدی بتحقیقی (980)
جزء القراءۃ للبخاری (56،135)
آثار السنن، ص106، دوسرا نسخہ ص69

چند اہم نکات مدنظر رکھیں:

"وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ” والی آیت مکی ہے جبکہ فاتحہ خلف الامام والی احادیث مدنی ہیں۔
◈ یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی تھی۔
حوالہ: تفسیر قرطبی، جلد1، ص121

◈ غیر اہل حدیث حضرات:
▪ امام کے پیچھے تکبیر تحریمہ اور "سبحانك اللهم” پڑھتے ہیں۔
▪ صبح کی سنتیں جماعت کے وقت پڑھتے ہیں — وہاں اس آیت کا حکم کہاں جاتا ہے؟

◈ رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے فاتحہ خلف الامام کا حکم دیا۔ کیا آپ ﷺ اس آیت کا مفہوم نہیں جانتے تھے؟

◈ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی بھی فاتحہ خلف الامام کا حکم دیتے تھے۔ کیا وہ آیت کے مفہوم سے ناواقف تھے؟

مزید مطالعہ کے لیے:

◈ تحقیق الکلام از مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ
◈ الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریہ از راقم الحروف
(حوالہ: شہادت نومبر 2000ء)

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1