نفل نماز کی رکعات
لغوی وضاحت:
برسبیل وجوب نہیں بلکہ اپنی خوشی سے کوئی کام بجا لانا تطوع کہلاتا ہے۔ یہ باب تَطَوْعَ يَتَطَوْع تفعل سے مصدر ہے ۔
[لسان العرب: 243/8 ، الصحاح: 1255/3]
قاموس میں اس کا یہ معنی مذکور ہے النافلة ۔
[القاموس المحيط: ص/ 670]
شرعی تعریف:
ایسی اطاعت و فرمانبرداری جو فرائض و واجبات کے علاوہ مشروع ہو۔
[التعريفات: ص/ 42 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 1055/2 ، مغني المحتاج: 219/1]
تطوع کے الفاظ:
تطوع کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ بھی مستعمل ہیں:
مندوب ، مستحب ، نفل ، سنت ، احسان اور فضیلت وغیرہ۔
[إرشاد الفحول: 20/1 ، البحر المحيط للزركشى: 284/1 ، الإحكام للأمدى: 111/1 ، الوجيز: ص/ 39]
تطوع کا حکم:
اس کا حکم یہ ہے کہ :
ما يمدح فاعله ولا يذم تاركه
”جس کے کرنے والے کی تو تعریف کی جاتی ہے (یعنی اسے اجر و ثواب دیا جاتا ہے) لیکن اسے چھوڑنے والے کی مذمت نہیں کی جاتی (یعنی اسے گناہ نہیں ہوتا ) ۔“
[إرشاد الفحول: 20/1 ، المستصفى للغزالى: 75/1 ، الموافقات للشاطبي: 109/1]
واضح رہے کہ اگرچہ نوافل و سنن کے چھوڑنے میں گناہ نہیں لیکن انہیں کلی طور پر چھوڑ دینا بھی جائز نہیں کیونکہ روز قیامت فرائض کی کمی نوافل سے پوری کی جائیگی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی فرمائیں گے: انظروا هل تجدون العبدى من تطوع فتكملون به فريضته ”دیکھو! اگر تمہیں میرے بندے کی نفلی عبادت ملے تو اس کے ساتھ اس کے (ناقص) فرائض کو مکمل کر دو۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 770 – 771 ، أبو داود: 866 ، أحمد: 103/4 ، ابن ماجة: 1426 ، حاكم: 262/1]
اور یہ بات اصول میں ثابت ہے کہ جو چیز فرائض کی تکمیل کے لیے لازم ہو اس کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جیسا کہ یہ قاعدہ ہے کہ :
مالا يتم الواجب إلا به فهو واجب
”جو چیز کسی واجب کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہو وہ بھی واجب ہے۔ “
مشروعیت:
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: ”مانگ لو“ میں نے عرض کیا:
أسألك مرافقتك فى الجنة
”میں جنت میں آپ کی رفاقت کا طلبگار ہوں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ اس کے علاوہ مزید بھی (مانگ لو)۔“ میں نے عرض کیا بس یہی مطلوب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فـاعـنـى على نفسك بكثرة السجود
”تو پھر اپنے مطلب کے حصول کے لیے کثرت سجود سے میری مدد کرو ۔“
[مسلم: 489 ، كتاب الصلاة: باب فضل السجود والحث عليه ، أبو داود: 1320 ، نسائي: 1138 ، بيهقي: 486/2]
امام صنعانیؒ رقمطراز ہیں کہ سجدوں کی کثرت تب ہی ممکن ہے جب نماز کی کثرت ہو اور کثرت یا قلت صرف نفل نماز میں ہی ممکن ہے جب کہ فرائض میں کمی بیشی قطعاََ ممنوع ہے۔
[سبل السلام: 512/2]
➊ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى أربع ركعات قبل الظهر وأربعا بعـدهـا حرمه الله على النار
”جو شخص ظہر سے پہلے چار اور اس کے بعد چار رکعتیں باقاعدگی سے ادا کرتا رہا اللہ تعالی نے اسے آتش جہنم پر حرام کر دیا ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1130 ، كتاب الصلاة: باب الأربع قبل الظهر وبعدها ، أحمد: 326/6 ، أبو داود: 1269 ، ترمذي: 428 ، نسائي: 204/2 ، ابن ماجة: 1160 ، حاكم: 312/1 ، شرح السنة: 464/3]
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں دو رکھتیں اور عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے اور يفصل بين كل ركعتيں بالتسليم ”ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیر کر فاصلہ کرتے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 489 ، كتاب الصلاة: باب ماجاء فى الأربع قبل العصر، ترمذي: 429 ، ابن ماجة: 1161 ، نسائي: 119/2]
معلوم ہوا کہ ظہر اور عصر کے ساتھ پڑھی جانیوالی چار چار رکعتوں کو دو دو کر کے پڑھنا چاہیے لیکن مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر سے پہلے والی چار رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ ہی پڑھنا افضل ہے۔
➌ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ ”ظہر سے پہلے (پڑھی جانیوالی ) ایسی چار رکعتوں کے لیے جن میں سلام نہ ہو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں .“
[حسن: صحيح أبو داود: 1131 ، أبو داود: 1270]
➍ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان النبى صلى الله عليه وسلم كان لايدع أربعا قبل الظهر وركعتين قبل الغداة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے ۔“
[بخاري: 1182]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رحم الله امراً صلى قبل العصر أربعا
”الله تعالى اس شخص پر رحم فرمائیں جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 1132 ، كتاب الصلاة باب الصلاة قبل العصر ، أبو داود: 1271 ، ترمذي: 430 ، أحمد: 117/2 ، ابن خزيمة: 1193 ، ابن حبان: 2453 ، بيهقي: 473/2 ، شرح السنة: 437/2]
ان چار رکعات کو دو دو کر کے پڑھنا بھی درست ہے جیسا کہ گذشتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔
مغرب کے بعد دو رکعتیں
➊ صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ وركعتين بعد المغرب ”اور مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھنا (مستحب ہے ) ۔“
[بخاري: 1180 ، مسلم: 729]
➋ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسجد میں نماز مغرب پڑھائی پھر فرمایا:
ار كعوا هاتين الركعتين فى بيوتكم
”ان دونوں رکعتوں (یعنی سنتوں ) کو اپنے گھروں میں ادا کرو ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 956 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب ماجاء فى ركعتين بعد المغرب ، ابن ماجة: 1165 ، التعليق على ابن خزيمة: 1200]
◈ عموماً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا کہ نوافل اور سنتوں کو گھر میں ہی ادا فرماتے اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین فرماتے جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فصـلـو أيها الناس فى بيوتكم فان أفضل صلاة المرء فى بيته إلا المكتوبة
”اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھو۔ بلاشبہ فرض نماز کے علاوہ آدمی کی بہترین نماز وہی ہے جو اس نے گھر میں ادا کی ۔“
[بخاري: 731 ، كتاب الأذان: باب صلاة الليل ، مسلم: 781 ، أبو داود: 1447 ، نسائي: 198/3]
مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مشروع ہے
➊ حدیث نبوی ہے کہ : بين كل آذانين صلاة ”ہر دو آذانوں (یعنی آذان اور اقامت) کے درمیان نماز ہے۔“
تیسری مرتبہ یہی بات کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لمن شاء ”جو شخص چاہے یہ نوافل پڑھ لے ۔“
[بخارى: 627 ، كتاب الأذان: باب بين كل أذانين صلاة لمن شاء ، مسلم: 838 ، أبو داود: 1283 ، ترمذي: 185]
➋ حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلوا قبل المغرب ، صلوا قبل المغرب
”مغرب سے پہلے نماز پڑھو ، مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔“
پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لــمــن شـاء كراهية أن يتخذها الناس سنة
”یہ حكم صرف اس کے لیے ہے جو پڑھنا چاہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس اندیشے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں لوگ اسے سنت (لازمہ) نہ بنا لیں ۔“
[بخاري: 1183 ، 7368 ، كتاب الجمعة: باب الصلاة قبل المغرب ، ابن خزيمة: 1289 ، أبو داود: 1281 ، دار قطني: 265/1 ، شرح السنة: 894 ، بيهقى: 474/2]
➌ صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى قبل المغرب ركعتين ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا فرمائیں ۔“
[الإحسان لابن حبان: 1586]
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ رہے ہوتے:
فلم يأمرنا ولم ينهنا
”نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ ہی اس سے منع فرماتے ۔“
[مسلم: 836 ، كتاب صلاة المسافرين و قصرها: باب استحباب ركعتين قبل صلاة المغرب]
دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : حفظت من النبى صلى الله عليه وسلم عشر ركعات ….
”مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی 10 دس رکعتیں یاد ہیں۔ دو رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو اس کے بعد ، مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں ، عشاء کی فرض نماز کے بعد دو رکعتیں گھر میں ، اور دو رکعتیں صبح سے پہلے (یعنی نماز فجر سے پہلے ) ۔“
[بخارى: 937 ، كتاب الجمعة: باب الصلاة بعد الجمعة و قبلها ، مسلم: 729 ، مؤطا: 16631 ، أبو داود: 1252 ، نسائي: 873 ، ترمذي: 433 ، شرح السنة: 444/3]
➋ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى اثنتى عشرة ركعة فى يوم وليلة بني له بهن بيت فى الجنة
”جو شخص شب و روز میں بارہ رکعت نوافل پڑھے ، اس کے لیے ان کے بدلے جنت میں گھر تعمیر کیا جائے گا۔“
[مسلم: 728 ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها: باب فضل السنن الراتبة ، أبو داود: 1250 ، أحمد: 327/6 ، دارمی: 335/1 ، أبو عوانة: 261/2 ، طيالسي: 1591 ، ابن خزيمة: 1185 ، ابن حبان: 2451 ، ابن ماجة: 1141]
جامع ترمذی میں اس کی مثل روایت مروی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے: ”چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت اس کے بعد میں ، دو رکعت نماز مغرب کے بعد ، دو رکعت نماز عشاء کے بعد اور دو رکعت صبح کی نماز سے پہلے ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 338 – 339 ، ترمذي: 415]
ان رکعتوں کو ہی سنن رواتب یا سنن موکدہ کہا جاتا ہے اور یہ واجب نہیں ہیں۔
(جمہور ) اسی کے قائل ہیں ۔
[فتح البارى: 367/3]
عشاء کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چار رکعتیں پڑھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
فصلي رسول الله العشاء ثم جاء إلى بيته فصلى أربع ركعات ثم نام
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی ، پھر گھر کی طرف چلے گئے اور چار رکعات ادا کرنے کے بعد سو گئے ۔“
[بخارى: 697 ، كتاب الأذان: باب يقوم عن يمين الإمام ، أبو داود: 1357 ، نسائي: 87/2 ، أحمد: 215/1]
(ابن قیمؒ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب و روز میں چالیس رکعتوں پر محافظت فرماتے۔ سترہ فرائض ، بارہ وہ رکعتیں جنہیں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے اور قیام اللیل کی دس رکعتیں ۔
[زاد المعاد: 327/1]