نفلی روزے کی نیت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نفلی روزے کی نیت
واضح رہے کہ گذشتہ سطور میں فرض روزے کی بات ہے جبکہ نفلی روزے کے لیے زوال سے پہلے بھی نیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ ہم نے کہا نہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فإني إذن صائم ”تب میں روزہ دار ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے دن ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہمیں حلوہ بطور ہدیہ دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ارينيه ، فلقد أصبحت صائما ، فاكل ”مجھے بھی حلوہ دکھاؤ ، بے شک میں نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے ، لیکن آپ نے (حلوہ ) کھا لیا۔“
[مسلم: 1154 ، كتاب الصيام: باب جواز صوم النافلة بنية من النهار قبل الزوال ، أبو داود: 2455]
(شافعیؒ ، احمدؒ ، مالکؒ) فرض روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری ہے جب کہ نفلی روزے کی نیت زوال سے پہلے تک کی جا سکتی ہے۔
(ابو حنیفہؒ) نصف النہار سے پہلے پہلے فرض اور نفل دونوں قسم کے روزوں کی نیت کی جا سکتی ہے تا ہم قضاء اور کفاروں میں رات کو نیت کرنا ضروری ہے۔
[المغنى: 333/4 ، الأم: 126/2 ، شرح المهذب: 304/6 ، الإختيار: 127/1]
(راجح) پہلا موقف راجح ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1