سوال :
نفاس (بچے کی ولادت پر جاری ہونے والے خون ) کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کیا ہے ؟
جواب :
نفاس کی کم سے کم مدت مقرر نہیں، البتہ زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
تَجْلِسُ النُّفَسَاءُ نَحْوًا مِّنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا .
”نفاس والی عورت (زیادہ سے زیادہ) قریباً چالیس دن نماز روزے سے رُکے گی۔ “
[مصنف ابن أبى شيبة : 28/4، السنن الكبرٰي للبيهقي : 341/1، وسندهُ صحيحٌ ]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ عَلَى أَنَّ النُّفَسَاءَ تَدَعُ الصَّلَاةَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، إِلَّا أَنْ تَرَى الطُّهْرَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّهَا تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي، فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ، فَإِنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا : لَا تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ , وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام، تابعین عظام اور بعد کے اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز نہیں پڑھے گی، ہاں اگر وہ اس سے پہلے پاک ہو جائے تو غسل کر کے نماز شروع کر دے گی۔ اگر وہ چالیس دن کے بعد بھی خون دیکھے تو اکثر اہلِ علم کے نزدیک وہ نماز پڑھتی رہے گی۔ اکثر فقہائے کرام کا یہی قول ہے۔ یہی بات امام سفیان ثوری، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ نے کہی ہے۔ “
[ سنن الترمذي، تحت الحديث : 139 ]
اس بارے میں ساری کی ساری احادیث ”ضعیف“ ہیں۔ اجماعِ امت نے ان سے مستغنی کر دیا ہے۔