حدیث کا مفہوم
حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ نذر ماننے سے تقدیر میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، لیکن اس کے نتیجے میں بخیل شخص کا مال صدقے میں خرچ ہوجاتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا يأتي ابن آدم النذر بشيء لم يكن قدر له ولكن يلقيه النذر إلى القدر قد قدر له فيستخرج الله به من البخيل فيؤتي عليه ما لم يكن يؤتي عليه من قبل…”
ابن آدم (انسان) کو نذر کوئی چیز نہیں دیتی جو اُس کی تقدیر میں نہ ہو، لیکن نذر اُسے اُس تقدیر کی طرف لے جاتی ہے جو اُس کے مقدر میں تھی۔ البتہ اللہ اس نذر کے ذریعے سے بخیل سے اس کا مال نکلواتا ہے، لہٰذا وہ شخص وہ (مال وغیرہ صدقے میں) دیتا ہے جو وہ اس سے پہلے نہیں دیتا تھا۔
(صحیح بخاری: 6694، صحیح مسلم: 1640)
نذر کے متعلق مولانا محمد داود راز رحمہ اللہ کی تشریح
مولانا محمد داود راز رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت میں فرمایا:
- عام طور پر لوگ اللہ کی راہ میں پیسہ خرچ نہیں کرتے، لیکن جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو مختلف منتیں اور نذریں ماننے لگتے ہیں۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نذر اور منت ماننے سے تقدیر نہیں بدلتی، کیونکہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے۔
- مسلم شریف کی حدیث میں واضح طور پر آیا ہے کہ "نذر نہ مانا کرو کیونکہ نذر سے تقدیر نہیں پلٹ سکتی”۔
- اگر نذر ماننے والے کا یہ عقیدہ ہو کہ اس عمل سے بلا ٹل جائے گی، تو یہ غلط تصور ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نذر سے منع فرمایا ہے۔
- البتہ، اگر کوئی یہ یقین رکھتے ہوئے نذر مانے کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے اور وہی جو چاہے، کرے، تو ایسی نذر جائز ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہے۔
- نذر ایک مالی عبادت ہے، اور اگر اسے غیر اللہ کے نام پر مانا جائے تو یہ شرک ہے۔ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر کسی بزرگ یا درویش کے نام پر نذر مانتے ہیں، وہ نہ صرف گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
(ماخذ: صحیح بخاری، مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور، جلد 8، صفحات 64-65، قبل حدیث نمبر 6608)
نذر کے جواز کی وضاحت
نذر کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
➊ ممنوع نذر
- مثلاً ایک آدمی جس کی اولاد نہیں ہے، وہ صدقات، نیک اعمال اور دعاؤں پر توجہ دینے کے بجائے یہ نذر مانے کہ "اے اللہ! اگر تُو نے مجھے بیٹا دے دیا تو میں مسجد، مدرسہ یا ہسپتال تعمیر کروں گا۔”
- اس طرح کی نذر ممنوع ہے کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے مترادف ہے۔
- اگر نذر مان لی جائے، تو اسے پورا کرنا واجب ہوگا۔
➋ جائز اور پسندیدہ نذر
- اگر کسی شخص کو اللہ نے پہلے سے کوئی نعمت دے دی اور وہ شکرانے کے طور پر نذر مانے: "اے اللہ! تیرا شکر ہے، میں تیرے دین کے لیے فلاں کام کروں گا”، تو یہ نذر جائز اور مستحسن ہے۔
نذر و نیاز کا شرعی حکم
- اللہ کے نام پر نذر و نیاز جائز اور صحیح ہے۔
- نذر و نیاز صرف اور صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے۔
- غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کرنا حرام اور شرک ہے۔
نتیجہ
حدیث اور فقہاء کی تشریحات سے واضح ہوتا ہے کہ نذر سے تقدیر نہیں بدلتی، لیکن اگر کوئی نذر کرلی جائے تو اسے پورا کرنا لازم ہے۔ البتہ، نذر کا مقصد اور نیت درست ہونی چاہیے۔ نذر اور نیاز صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے، غیر اللہ کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب