دین اسلام امن و آشتی کا دین ہے:
اسلام امن و آشتی کا دین ہے، قیام امن کے لیے یہ کارنامہ بھی سر انجام دیا کہ وحدتِ انسانی کا تصور قائم کیا۔ جبکہ قبل اس سے انسانیت مختلف قبائل، اقوام اور طبقات میں بٹی ہوئی تھی، اور ان قبائل و طبقات کا باہمی فرق ایسا اور اتنا تھا جتنا انسان و حیوان ، آزاد و غلام اور عابد و معبود کا فرق ہو سکتا ہے، نیز آپ علیہ السلام کی بعثت سے قبل وحدت و مساوات انسانی کا تصور خواب و خیال بن چکا تھا۔ سید ابو الحسن علی ندوی ”نبی رحمت“ میں رقمطراز ہیں:
”چھٹی صدی عیسوی میں دُنیا کے لیے بڑے بڑے مذاہب، قدیم مذہبی صحیفے اور ان کے احکام و قوانین بازیچہ اطفال بن چکے تھے اور تحریف کے علمبرداروں، منافقوں اور ناخدا ترس و بے ضمیر مذہبی رہنماؤں کی ذاتی اغراض کا نشانہ اور حوادثِ زمانہ کا اس طرح شکار ہو چکے تھے کہ ان کی اصلی شکل وصورت کا پہنچاننا مشکل بلکہ ناممکن تھا، اگر ان مذاہب کے اولین بانی و علم بردار، اور ان کے انبیاء کرام دوبارہ واپس آکر اس حالت کو دیکھتے تو ان مذاہب کو خود نہ پہچان سکتے اور ان کا انتساب اپنی طرف کرنے پر ہرگز تیار نہ ہوتے ۔“
نبی رحمت ص 35
”چھٹی صدی عیسوی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، تاریخ کا بدترین دور تھا، پوری انسانیت خودکشی کے راستہ پر تیزی کے ساتھ گامزن تھی ، اس کے اندر بھلائی و برائی اور زشت و خوب میں تمیز کرنے کی بھی صلاحیت باقی نہیں تھی، بسا اوقات پورے پورے ملک میں ایک شخص ایسا نظر نہ آتا جس کے دل میں انسانیت کا درد ہو، اور اس کے تاریک و ہولناک انجام پر کچھ بے چیز ہو۔“
أيضا، ص: 5، بتعديل
چنانچہ دین اسلام نے صدیوں کی طویل خاموشی اور چھائے ہوئے اندھیروں میں یہ انقلابی، قلوب و اذھان کو جھنجھوڑ دینے والا اور حالات کے رُخ موڑ دینے والا اعلان عام فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾
[الحجرات: 13]
”لوگو! ہم نے تمھیں مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا کیا ہے، اور ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹ دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہیں جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہیں، بے شک اللہ بڑا جاننے والا ، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ “
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أيها الناس إن ربكم واحد، وإن أباكم واحد، كلكم من آدم، وآدم من تراب. إن أكرمكم عند الله أتقاكم، وليس لعربي على أعجمي فضل إلا بالتقوى
مسند أحمد: 411/5 رقم: 2389۔ شیخ شعیب نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
”اے لوگو! تمہارا رب ایک اور تمہارا باپ ایک ، تم سب آدم کے بیٹے ہو اور آدم مٹی سے (پیدا کیے گئے) تھے ۔ تم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے شریف وہ انسان ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے، اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ، مگر تقویٰ اور پر ہیزگاری کی وجہ سے۔“
شریعت اسلامیہ کی یہ نصوص وحدة العرب اور وحدۃ الاب کا نظریہ دے کر اس پر امن و آشتی کی بنیاد رکھتی ہیں۔ چنانچہ دین اسلام میں کوئی نسل کسی نسل پر اور کوئی قبیلہ کسی قبیلے پر فوقیت نہیں رکھتا ، اصل معیار فضیلت تقویٰ ہے۔
اسلام ظلم وستم کا دین نہیں:
فی زمانہ دین اسلام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ظلم وستم کا دین ہے، بلکہ پیغمبر دین علیہ الصلوۃ السلام کے بارے میں ہے کہ 1870ء میں شائع شدہ کتاب ”لائف آف دی محمد“ صلی اللہ علیہ وسلم میں یو پی ۔ بھارت کے گورنر ولیم میور نے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے لکھا ہے کہ:
”دو چیزیں انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہیں ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلوار۔“ (موج کوثر ، ص: 163)
حالانکہ دین اسلام میں تو سراسر انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالم انسانیت کے لیے امن و آشتی کا درس دیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی عظمت و احترام ہر حقوق انسانی کے متعلق وہ دائمی تصور دیا ہے جو انسانیت نوازی پر مبنی دائمی دستاویز ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ”معاہدة حلف الفضول“ تو سراسر مظلوموں کی نصرت کا پہلا تاریخی منشور ہے۔ اور اسی طرح تاریخ انسانی کا اولین معاہدہ امن ”مواخات“ ہے۔ یہ دستاویز و معاہدات حقوق انسانی کے لیے ہی تو ہیں، پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہ دساتیر اور تعلیمات محض کاغذی تخیلاتی اور دفعات محض نہیں بلکہ عملی طور پر نافذ العمل بھی ہیں۔ اب اس کے باوجود بھی اگر یہ کہا جائے کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا، اور عالم انسانیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سے خطرہ ہے تو اس سے بڑھ کر تعصب اور ہٹ دھرمی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی پالیسی:
محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی پالیسی کا اساسی کلیہ یہ تھا کہ مخالف عنصر کا خون بہانے کی بجائے اسے بے بس کر دیا جائے ، تاآنکہ یا تو وہ تعاون کرے یا مزاحمت چھوڑ دے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے ابواب کو جن محققین و مفکرین نے ہمارے سامنے بے نقاب کیا ہے ان میں ارض ہندو پاک کے ایک مایہ ناز فرزند ڈاکٹر حمید اللہ صدیقی ہیں موصوف نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی پالیسی کو یوں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”اصل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو نیست و نابود کرنے کے بجائے مجبور کرنا پسند فرمایا۔ “
عہد نبوی ﷺ کے میدان ہائے جنگ ، جی: 44
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
”آنحضرت نے ان کی سیاست قریش کو تباہ و نابود کر نے پر نہیں، بلکہ بالکل محفوظ رکھ کر بے بس اور مغلوب کر دینے پر مشتمل تھی ۔“
عہد نبوی ﷺ میں نظام حکمرانی، ص: 240
اپنے اس نظریہ کو فاضل محقق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کردہ تدابیر کی تفصیل دے کر اور سلسلہ واقعات پر تبصرہ کر کے بڑی خوبی سے ثابت کیا ہے۔
حسن انسانیت ص: 387
دراصل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ چارونا چار میدانِ کارزار میں اترنا پڑا، کیونکہ شہادت گہ الفت کے باہر سے کوئی راہ نصب العین کی طرف نہ جاتی تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کے ٹکڑوں کے بجائے روحوں کو فتح کرنا چاہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلوار کے زور سے بدنوں کو مطیع بنانے کے بجائے دلیل سے دماغوں کو ، اور اخلاق سے دلوں کو مسخر کرنا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل معرکہ رائے عامہ کے میدان میں تھا، اور اس میدان میں حریفوں نے زک اُٹھائی اور تیزی سے بازی ہارتے چلے گئے۔ جنگی کارروائی اس تصادم کا بہت چھوٹا جزء ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو امن دشمنوں سے پیش آیا ۔
دیکھیے کہ غزوہ خیبر کی مہم کے دوران میں سیدنا علی رضی الله عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم خاص عنایت فرماتے ہوئے کیا تاکید کی تھی؟ فرمایا: اے علی ! اگر تمہارے ذریعے سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو یہ تمہارے لیے سب سے بڑی نعمت ہوگی۔
صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر
یعنی اصل مقصود دشمن کا جانی نقصان اور خونریزی نہیں ہے، بلکہ فوقیت اسی بات کو ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کے دل و دماغ میں تبدیلی واقع ہو اور وہ نظام امن کو قبول کر لیں، یہ نمایاں جنگی انداز ہم نے محض بطور نمونہ پیش کیا ہے، ورنہ ایسے شواہد کی کمی نہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی نقطہ نظر سامنے آ جاتا ہے۔ جنگ جوئی اور خونریزی کرنے والے لوگ مغلوب الغضب اور جلد باز ہوتے ہیں، بخلاف اس کے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھنڈے عزم اور عالی حوصلے سے آراستہ پاتے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی پالیسی میں قوت کے استعمال کے بجائے حکمت دانشمندی کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حکمت دانشمندی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں جاتے ہی مختلف عناصر کو مرکب کر کے اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھ دیتے ہیں، کسی انقلابی نظریے پر بغیر ایک قطرہ خون بہائے نظام ریاست کو یوں استوار کر دینے کی مثال تاریخ کے اوراق میں ملنا ناممکن ہے۔ صحیح معنوں میں غیر خونی (Blood Less) انقلاب ہمیں یہی ایک ملتا ہے، جس کی بنیادوں میں انسانی خون کا ایک قطرہ نہ گرا، اور جس کی نیو کے پتھروں میں کسی ایک فرزندِ آدم کا لاشہ شامل نہیں، یہ محیر العقول واقعہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخصوص شان کا ترجمان ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں میں جانی نقصانات کے اعدادو شمار:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالہ جنگی کارروائیوں کی یہ خاص نوعیت جانی نقصان کے اعدادو شمار سامنے رکھنے سے بخوبی واضح ہو جاتی ہے ۔ ماننا پڑتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”کم سے کم خونریزی“ کا ارادہ و اصول سامنے رکھا، اور بہت قلیل جانی نقصان کے ساتھ دس لاکھ مربع میل رقبہ کی سلطنت قائم کر دکھائی۔ آپ کی جنگی کارروائیوں میں طرفین سے کام آنے والے افراد کی تعداد درج ذیل ہے:
نام غزوه یا سریہ مسلمانوں کا نقصان دشمن کا نقصان
شہید مقتول
1: غزوہ بدر 22 70
2: غزوہ أحد 70 30
3: غزوہ احزاب 6 10
4: غزوہ خیبر 18 93
5: سریہ موتہ 12 نا معلوم
6: غزوہ فتح مکہ 2 12
7: غزوہ حنین و طائف 6 71
کل تعداد 136 286
سات غزوات و سرایا میں دونوں طرف سے کام آنے والے افراد کی کل تعداد 422 ہے۔ عام طور پر مؤرخین اور سیرت نگاروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات و سرایا کی تعداد 82 لکھی ہے جو کہ درست نہیں۔ غزوات کی تعداد صرف سات ہے، البتہ حیات طیبہ کی تمام چھوٹی بڑی کارروائیوں اور نقل و حرکت کی تعداد 82 ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
کارروائیوں کا مقصد کارروائیوں کی تعداد شہدا کی تعداد تعداد مقتولین دشمن
1: تبلیغ اسلام اور تکمیل معاہدات 5 – –
2: بت شکنی کی مہمات 3 – –
3: دشمن کی طرف سے ڈاکہ زنی کے بعد مسلمانوں کا تعاقب 10 19 12
4: ذاتی نوعیت کے واقعاتِ قبل 5 – 5
5: غلط فہمی کی بنا پر پیش آنے والے تصادم 6 – 127
6: سرحدوں کی حفاظت کے لیے کی گئی کارروائیاں 38 73 11
7: دشمن کی طرف سے دھوکہ دہی اور بغاوت کے واقعات 8 82 410
8: جنگیں (غزوات و سرایا) 7 136 286
کل تعداد 82 310 851
82 کارروائیوں میں دونوں طرف سے کام آنے والے افراد کی کل تعداد رحمتہ اللعالمین ج 2، باب غزوات وسرایا اور الرحیق المختوم، ص: 424، 495 پر 1161 ہے۔
82 کارروائیوں میں کام آنے والے افراد کی یہ محیر العقول تعداد اس زمانے کی ہے جس زمانے میں انتقام در انتقام کی شکل میں ہونے والی طویل جنگوں میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت ایک معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔
امن پسند ”مہذبوں“ کی امن پسندی:
آیئے ایک نظر آج کے نام نہاد مہذب، داعیانِ تہذیب اور امن پسند یورپ کی رزم آرائیوں پر ڈالیں، اور دیکھیں کہ کس کی تلوار عالم انسانیت کی دشمن اور خون کی پیاسی ہے؟ اور کون انسانیت کا دشمن ہے؟
1۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں امریکی سفید فام نو آبادکاروں نے اپنی ”نئی دنیا“ آباد کر نے کے لیے ستر لاکھ ریڈ انڈینز کا قتل عام کیا۔ براعظم افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کو جانوروں کی طرح پکڑ پکڑ کر اپنا غلام بنایا، جہازوں میں جانوروں کی طرح لاد لاد کر امریکہ لائے اور ان کی با قاعدہ خرید و فروخت کی ۔ ان سیاہ فام باشندوں کی نسل آج تک امریکہ میں سفید فاموں کے برابر حقوق حاصل نہیں کر سکی۔ جب بھی سیاہ فام انسانوں نے امریکی دستور میں لکھے گئے ، ”انسانی حقوق“ کا مطالبہ کیا، انہیں نہایت بے رحمی سے کچل دیا گیا۔
(امریکی سیاہ قام محمد علی کلے، اسلام قبول کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میں 1960 میں اٹلی کے شہر روم سے ایک مقابلہ جیت کر امریکہ واپس آیا تو ایک ہیرو کی طرح میرا استقبال کیا گیا۔ ایک روز میں ایسے ہوٹل میں چلا گیا جو گوروں کے لیے مختص تھا، جونہی میں ایک میز پر بیٹھا، ہوٹل کی خاتون مینیجر نے مجھے بڑی درشتی سے حکم دیا: ہوٹل سے باہر چلے جاؤ، یہاں کسی سیاہ فام کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے بتایا میں روم میں اولمپک مقابلوں میں جیت کر آیا ہوں اور سونے کا تمغہ حاصل کیا ہے، لیکن اس خاتون نے ایک نہ سنی اور حقارت کے ساتھ زبردستی مجھے ہوٹل سے نکال دیا۔ ) (ہم مسلمان کیوں ہوئے ، از عبد الغنی فاروق ص: 456)
2۔ 1890ء میں جنوبی ڈکوٹا اور ارجنٹائن پر امریکہ نے حملہ کیا۔ 1891ء میں چلی پر حملہ کیا، 1892 میں اواہو پر ، 1893ء میں ہوائی پر حملہ کر کے آزاد ریاست کا خاتمہ کیا، 1894ء میں کوریا پر 1895ء میں پانامہ پر ، 1896ء میں نکاراگوا پر حملہ کیا، 1898ء میں فلپائن پر حملہ کیا، یہ جنگ 1910ء تک یعنی بارہ سال تک جاری رہی جس میں چھ لاکھ فلپائنی مارے گئے۔
3۔ 1912 ء میں کیوبا پر حملہ کیا، 1913ء میں میکسیکو پر ، 1914ء میں ہیٹی پر، 18، 1917ء میں جنگ عظیم اول میں شرکت کی ، 1919ء میں ہونڈریس پر حملہ کیا، 1920ء میں گوئٹے مالا پر حملہ کیا، 1921ء میں مغربی ورجینیا پر حملہ کیا۔
4۔ 45۔ 1941ء کی جنگ عظیم دوم ، جس میں چار کروڑ انسان لقمہ اجل بنے ، صرف امریکہ بہادر نے اس جنگ میں تین کھرب 60 ارب ڈالر خرچ کئے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ امریکی فوجیوں نے اس میں حصہ لیا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کرنے والوں میں حقوق انسانی کے علمبردار امریکا کا صدر ”ٹرومین“ اور ”مہذب“ برطانیہ کا وزیراعظم ”سر“ ونسٹن چرچل بھی شامل تھے۔
5۔ 1943 ء میں ڈیٹوریٹ میں سیاہ فاموں کی بغاوت کچلنے کے لیے امریکہ نے فوجی ایکشن کیا۔ یونان کی خانہ جنگی (49۔ 1947) میں کمانڈو آپریشن کیا، 1950ء میں پورٹو ایکو پر حملہ کیا، 1953ء میں فوجی آپریشن کے ذریعہ ایران کی حکومت بدلی، 1954ء میں گوئٹے
مالا پر بمباری کی ۔
6۔ 1920ء تا 1975ء امریکہ نے مسلسل پندرہ سال تک ویت نام پر جنگ مسلط کئے رکھی، جس میں دس لاکھ انسان ہلاک ہوئے۔
7۔ 1965ء میں امریکہ نے انڈونیشیا کے آمر صدر سہار تو کو بائیں بازو کے دس لاکھ افراد کو قتل کرنے کے لیے مدد فراہم کی۔
8۔ 1969 ء سے 1975 ء تک (چھ سال) کمبوڈیا سے جنگ کی، جس میں 20 لاکھ انسانوں کا قتل عام ہوا۔
9۔ 73-1971ء میں لاؤس پر بمباری کی ، 1973ء میں جنوبی ڈیکوٹا میں فوجی آپریشن کیا، 1973ء میں ”چلی“ میں فوجی آپریشن کے ذریعہ حکومت تبدیل کی ، 1976، 92ء میں انگولا میں جنوبی افریقہ کی حمایت سے ہونے والی بغاوت میں باغیوں کو مدد فراہم کی۔ 90۔ 1981ء میں ”نکارا گوا“ میں فوجی آپریشن کیا، 84، 1982ء میں لبنان کے مسلم علاقوں پر بمباری کی، 1984ء میں خلیج فارس میں دو ایرانی طیارے تباہ کئے ۔ 1986ء میں حکومت تبدیل کرنے کے لیے لیبیا پر حملہ کیا۔
10۔ 1979ء میں عراق نے امریکہ کے فوجی تعاون سے ایران پر حملہ کیا، یہ جنگ مسلسل آٹھ سال تک جاری رہی ، جس میں دونوں طرف سے لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے۔
11۔ 1989ء میں فلپائن میں فوجی بغاوت ہوئی۔ امریکہ نے بغاوت کچلنے کے لیے فلپائن کو فضائی مدد مہیا کی ۔ 1989ء میں ہی فوجی آپریشن کے ذریعہ پانامہ میں حکومت تبدیل کی، جس میں 2 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
12۔ 1989ء میں الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ الیکشن میں بھاری اکثریت سے جیتی ، جو ملک میں اسلامی انقلاب لانا چاہتی تھی ، اسلامی انقلاب کو روکنے کے لیے امریکہ کی مدد سے فوجی آپریشن کیا گیا، جس میں 80 ہزار افراد قتل ہوئے۔
13۔ 1990ء میں عراق کو کویت پر حملہ کرنے کی ترغیب دلائی، اور 1991ء میں ”ڈیزرٹ سٹارم آپریشن“ کی صورت میں خود عراق پر حملہ کر دیا، جس میں ہزاروں عراقی ہلاک ہوئے۔
14۔ 1994ء میں ہیٹی کی حکومت بدلنے کے لیے فوجی آپریشن کیا ۔ 1996ء میں عراق پر حملہ کیا، اور فوجی اہمیت کے 27 ٹھکانوں پر مزائل پھینکے۔ 1998ء میں سوڈان کی دواساز کمپنی پر میز سے 1998ء میں عراق پر پھر مسلسل چار دن تک میزائلوں سے بمباری کی۔
15۔ 1990ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت انڈونیشیا میں بغاوت کروائی ، عیسائیوں کو مدد فراہم کی ، لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا، بالآخر مشرقی تیمور کی صورت میں ایک عیسائی ریاست قائم کی۔
(مذکورہ بالا اعدادوشمار خالد محمود قادری کی کتاب ”افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام“ سے لیے گئے ہیں۔ )
16۔ سوویت یونین کے جابرانہ تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے دس لاکھ شہداء کی قربانیاں دینے والے زخموں سے نڈھال، نہتے افغانستان پر 2001 ء میں طیاروں اور میزائلوں سے شدید بمباری کی ، جس کے نتیجہ میں 25 ہزار بے گناہ شہری شہید ہوئے ، 7 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا اور طالبان کی جگہ شمالی اتحاد کی کٹھ پتلی حکومت قائم کی ۔
17۔ عراق میں تباہ کن ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر 20 مارچ 2003ء کو امریکہ نے عراق پر حملہ کیا، جس میں ہزاروں بے گناہ شہری مارے گئے، امریکی قبضہ کے بعد فلوجہ شہر کے عوام کی مزاحمت پر امریکی فوج نے فلوجہ پر زہریلی گیس چھوڑی اور کیمیاوی ہتھیار بھی استعمال کئے ، جن کے استعمال پر بین الاقوامی طور پر پابندی عائد ہے۔
(ہفت روزہ تکبیر، کراچی، جنوری 2006)
انسانی جان کی حفاظت:
انسانی فطرت ہے، بلکہ تمام حیوانات اور ذی نفس کا خاصہ ہے کہ وہ جان کی حفاظت ضروری سمجھتا ہے۔ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کے لیے بہت ہی معقول اور مؤثر طریقہ بتایا ہے۔ اور اس کی تنفیذ کا حکم دیا ہے۔ انسانی جان اللہ رب العزت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بہت ہی قیمتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جانوں کی حفاظت کا سخت انتظام فرمایا ہے۔ ایک فرد کے قتل کو تمام لوگوں کا قتل قرار دیا۔ ارشاد فرمایا:
﴿مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا﴾
[المائدة: 32]
”اسی لیے بنی اسرائیل پر ہم نے فرض کر دیا۔ کہ جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے گا یا زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے قتل کرے گا تو گویا اس نے پوری نوع انسانی کو قتل کر ڈالا ، اور جو اسے زندہ رکھے گا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ چھوڑا۔“
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أول ما يقضى بين الناس يوم القيامة فى الدماء
صحیح بخاری، رقم: 6864۔ صحیح مسلم، رقم: 1678/28
”قیامت کے روز معاملات سے متعلق سب سے پہلے خون کا فیصلہ ہوگا۔“
اسلام میں کسی بھی شخص کا خون بہانا حرام ہے، خواہ وہ کسی بھی دین اور مذہب کا ہو بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے جنگ نہ کرتا ہو، اور مسلمانوں کے جان و مال کے در پے نہ ہو۔ اگر وہ مسلمانوں کے عہد و پیمان اور امان کے اندر ہے تو اس کے قتل پر اللہ کی طرف سے بہت سخت وعید آئی ہے۔ جس طرح ایک مسلمان کے قتل پر سخت وعید آئی ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
﴿وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾
[النساء: 93]
”جو شخص جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ کا غضب اس پر ہوگا اور لعنت بھی، اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“
اسی طرح عہد و پیمان دے کر کسی غیر مسلم کو قتل کرنے کی سزا اور عذاب یہ ہے کہ قاتل جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة (أى لم يشمها) وإن ريحها توجد من مسيرة أربعين عاما
صحیح بخاری، کتاب الجزيه والموادعة، رقم: 3166
”جو شخص ذمی اور معاہدین میں سے کسی کو قتل کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا، اور اس کی خوشبو چالیس سالوں کی مسافت تک محسوس کی جاتی ہے۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچنا۔ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! وہ کون سی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شرک کرنا ، جادو کرنا، جس کا قتل جائز نہ ہو اس کو ناحق قتل کرنا ۔ “
صحیح مسلم کتاب الایمان، رقم: 362
توراۃ کا قانون بھی یہی تھا اور وہی قانون قرآن نے مسلمانوں کے لیے بھی برقرار رکھا۔
فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ﴾
[المائدة: 45]
”ہم نے یہودیوں پر توراۃ کے ذریعہ فرض کیا تھا کہ قاتل کو مقتول کے بدلے قتل کیا جائے ، مظلوم کو آنکھ پھوڑنے کے بدلے میں ظالم کی آنکھ پھوڑی جائے ! ناک کان کاٹنے کے بدلے میں کاٹنے والے کے ناک اور کان کاٹے جانے کے بعد پھر قتل کیا جائے۔ اگر زخمی کیا تو زخم کا بدلہ زخم لگا کر لیا جائے۔ “
یہ قانون تورات میں اب بھی پایا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس میں یہودی علماء نے بہت تبدیلیاں کر ڈالی ہیں۔
دیکھئے: الكتاب المقدس خروج 23، 21 – 25۔ اسی طرح انجیل متی میں بھی اسی جیسا حکم ہے ۔ دیکھئے: متی ۔ 21۔ 5۔ 19/18۔ ۔ لوقا 18/20
قصاص میں خیر و بھلائی ہے۔ اسی حکمت کو قرآن کریم میں دو ٹوک الفاظ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
[البقرة: 179]
”عقل وخر دوالو ! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔ “
انسانی عقول کی حفاظت:
اسی طرح اسلام نے اس عقل کی حفاظت کے لیے سخت سے سخت انتظام کیا ہے۔ کیونکہ یہ عقل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾
[يوسف: 2]
”یقینا ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں اتارا ہے تاکہ تم اسے سمجھو۔ “
لہذا ہر اس چیز کو اسلام نے حرام کیا ہے جس سے عقل انسانی کو وقتی طور پر یا ہمیشہ کے لیے نقصان پہنچ سکتا ہے اور انسان بے عقل ہو سکتا ہے۔ جس طرح پورے نفس اور انسانی وجود کا مالک اللہ ہے اسی طرح اس کی عقل کا مالک بھی اللہ ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
[المائدة: 90]
”اے ایمان والو! شراب اور جوا، بت اور تیروں کے ذریعہ قسمت کے جاننے کی کوشش کرنا یہ ناپاک چیزیں ہیں ، شیطان کے کاموں میں سے ہیں۔ ان سب مذکورات سے باز رہو! اسی میں تمہاری فلاح و بہبود ہے۔ “
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كل مسكر خمر وكل خمر حرام
سنن ابوداؤد، کتاب الأشربة، حدیث نمبر: 3679۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”ہر نشہ والی چیز خمر ہے اور خمر شراب حرام ہے۔“
اللہ کی عطا کردہ اس نعمت عقل کی حفاظت ہی کے پیش نظر اگر کوئی شخص شراب پیتا ہے تو اس کے اوپر حد شرعی واجب ہے۔ دنیا کے عقلمند یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ اسلام کی تعلیم شراب کے بارے میں بہت ہی معقول ہے کہ اس شراب سے سوسائٹی میں بہت کچھ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ شراب کی خرابی سے متعلق ایک حدیث کا ذکر کر دینا اس موقع پر مناسب ہوگا۔ طبرانی اور حاکم رحمہ اللہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر وعمر اور کچھ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بیٹھے:
فذكروا أعظم الكبائر فلم يكن عندهم فيها علم ينتهون إليه
”اور بڑے سے بڑے گناہوں کا ذکر آیا تو ان لوگوں کے پاس اس بارے میں یقینی علم نہ تھا۔ “
تو مجھے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج کر پوچھا توسیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بتایا:
أن أعظم الكبائر شرب الخمر
صحيح الترغيب والترهيب، حدیث نمبر: 2370
”کہ سب سے بڑا گناہ شراب کا پینا ہے۔ “
میں نے آکر ان کو بتایا تو سب نے اس پر نکیر کی ، اور سب اٹھ کر سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے گھر آئے، تو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے سب سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن ملكا من بني إسرائيل أخذ رجلا، فخيره بين أن يشرب الخمر، أو يقتل صبيا، أو يزنى، أو يأكل لحم الخنزير، أو يقتلوه إن أبي، فأختار أن يشرب الخمر وإنه لماشربها لم يمتنع من شيء أرادوا منه
سلسلة الاحاديث الصحيحة حدیث نمبر: 2695
”کہ بنو اسرائیل کے ایک بادشاہ نے ایک شخص کو پکڑا اور اسے اختیار دیا کہ یا تو شراب پی ، یا ایک آدمی کو قتل کرے، یا پھر زنا کرے، یا سور کا گوشت کھائے ورنہ اگر ان میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کرتا تو اسے قتل کر دیا جائے ۔ تو اس شخص نے شراب پی لینے کو سب سے ہلکا گناہ سمجھ کر شراب پی لی۔ جب شراب پی لی تو مست ہوا، عقل جاتی رہی، پھر باقی دوسرے گناہ جن میں اس کو اختیار دیا گیا تھا سب کچھ کر گزرا۔ “
حسب و نسب کی حفاظت:
اسلام کی اہم تعلیمات میں سے حسب ونسل کی حفاظت ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے شریعت نے نکاح اور شادی کا تاکیدی حکم دیا ہے۔ یعنی نکاح کے فوائد میں سے نسل کی بڑوھتی بھی ہے، اور رہبانیت اور قطع تعلق عن الدنیا سے منع فرمایا۔
حدیث شریف میں ہے کہ مسلمان اپنے اہل و عیال پر جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ اس کے لیے صدقہ لکھا جاتا ہے۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
دينار أنفقته فى سبيل الله ودينار أنفقته فى رقبة، ودينار تصدقت به على مسكين، ودينار أنفقته على أهلك، أعظمها أجرا الذى أنفقته على أهلك
صحيح مسلم، کتاب الزكاة، حدیث نمبر: 2358۔ صحیح الجامع الصغير رقم: 3398
”ایک دینار تم نے جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کیا ، ایک دینار غلام آزاد کرنے میں خرچ کیا، ایک دینار کسی مسکین پر خرچ کیا اور ایک دینار اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا تو ان میں سے سب سے زیادہ اجر و ثواب اس پر ملے گا جسے تم نے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا۔“
اسلام نے نسل کی تربیت اور اس کی حفاظت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ تاکہ وہ صالح اور نیک ہو۔ جب وہ اولاد صالح ہوگی تو خود والدین کی وقت ضرورت خدمت کرے گی۔ اور اس خدمت کو اللہ نے اولاد پر فرض کر دیا ہے۔
﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾
[الإسراء: 23]
”اور تمھارے پروردگار نے صاف حکم دیا ہے، تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔ “
مرنے کے بعد بھی یہ اولاد نفع پہنچائے گی ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا مات ابن آدم إنقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعوله
صحیح مسلم، کتاب الوصية، حدیث نمبر: 4199- صحيح الترغيب والترهيب، كتاب العلم حديث نمبر: 78
”جب ابن آدم فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزیں (اس کے لیے نفع مند ثابت ہوتی ہیں): (1) صدقہ جاریہ ۔ (2) علم نافع اور (3) نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرتی ہے۔“
مسلمان کی عزت نفس کی حفاظت:
اسی طرح اسلام نے اس انسان کو باعزت بنایا ہے۔ کسی کے لیے جائز نہیں ! کہ اس کو حقیر سمجھے کسی بھی خاندان کا ہو، کسی بھی ملک کا ہو، کسی بھی رنگ کا ہو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ﴾
[الإسراء: 70]
”یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی۔“
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾
[الحجرات: 11]
”اے ایمان والو! کوئی مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو، اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ! ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ، اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بد گمانی سے بچو، بدگمانی سب سے بڑی جھوٹی بات ہے، عیب نہ ٹولو۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں میں نہ لگو۔ حسد بغض اور ایک دوسرے سے منہ پھلانے سے بچو، سب سے مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو ۔
صحيح بخارى، كتاب الأدب، رقم: 6066 ۔ صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 2563
مال کی حفاظت:
اسی طرح اسلام نے مال کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔ ہر شخص اس حد تک مال کما سکتا ہے اور جمع کر سکتا ہے جس کے ذریعہ اپنی زندگی آرام سے گزار سکے ۔ مال کے لیے شرط ہے کہ حلال طریقے سے کمایا ہو اور پھر اس میں سے اللہ کا مقرر کردہ حق ادا کیا ہو۔ اللہ رب العزت نے مال کو لوگوں کے زندہ رہنے کا سبب بتایا ہے اور اس کی حفاظت کا حکم بھی دیا ہے:
﴿وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا﴾
[النساء: 5]
”بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو، جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے، ہاں ! انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو۔“
ہر شخص کو حق ہے کہ شرعی طریقے پر جس قدر مال جمع کر سکے کرے لیکن مال کے راستے میں واجبات شرعیہ کو نہ چھوڑے اور خود مال میں جو حق واجب آتا ہے اس کو ادا کرے۔ فرمان باری تعالی ہے:
﴿فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ﴾
[الجمعة: 10]
”پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔“
مال کی حفاظت کے سلسلے میں خود صاحب مال کو حفاظت کی تاکید فرمائی گئی۔ اسراف اور ناحق خرچ کرنے سے منع کیا گیا۔ ارشاد فرمایا:
﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا.إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا.﴾
[الإسراء: 26، 27]
”اور رشتےداروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو! اور اسراف اور بیجا خرچ سے بچو! بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ “
نیز یتیموں کو لوگ کمزور سمجھ کر ان کا مال ہڑپ کر لینے کے درپے رہتے ہیں اس وجہ سے ان کے مال کی حفاظت کی بھی بڑی تاکید فرمائی:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ﴾
[الأنعام: 152]
”اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد تک پہنچ جائے اور ناپ اور تول پورا کرو انصاف کے ساتھ ۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من ولى بنيما وله مال فليتجرله إلا تأكله الصدقة
سنن ترمذی، کتاب الزكاة، حدیث نمبر: 641
”یتیم کے ولی کو چاہیے کہ اس کا مال تجارت میں لگا دے، تاکہ زکاۃ مال کوکھا نہ جائے !“
مزید ارشاد فرمایا:
﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ . يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ﴾
[البقرة: 275، 276]
”سود خور نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے ! یہ اس لیے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لیے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ (حرام کی طرف لوٹا) ، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔ “
سود کا مال خود سود خور کو لے ڈوبے گا! اس میں نہ برکت ہوگی نہ ہی وہ اس سے آسودہ ہوگا! یہ مال اولاد کو کھلا کر ان پر مصائب کا سبب بنا سکتا ہے۔ اور تھوڑا حرام اس کے زیادہ حلال مال کو کھا بھی سکتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن الربا وإن كثر فإن عاقبته إلى قل
الترغيب والترهيب، حدیث نمبر: 1863
”کہ سود کا مال اگرچہ دیکھنے میں زیادہ ! مگر اس کا انجام قلت ہی ہے۔ “
غرضیکہ کہ اسلام میں مال حلال کا خاص احترام ہے۔ اسی وجہ سے ہر غیر شرعی طریقے سے مال کا کھانا ، مال کا خرچ کرنا حرام کیا گیا اور حرام کھانے والے کے بارے میں بہت سخت وعید آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كل جسد نبت من سحت فالنار أولى به
صحيح الجامع الصغیر حدیث نمبر: 4519
”ہر جسم جو حرام سے پلا ہو تو جہنم کا زیادہ حقدار ہے۔“
نیز حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء، يارب ! يارب! ومطعمه حرام، و مشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك
صحیح مسلم، کتاب الزكاة، حدیث نمبر: 2346
”جو آدمی لمبا سفر کرتا ہے۔ پریشان صورت اور پریشان حالت میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یا رب! یا رب ! کہتا ہے مگر اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے، اس کی غذاء حرام کی ہے ، تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟“
اسی وجہ سے مال کے چوری کرنے پر اگر دینار کا چوتھائی حصہ بھی چوری کیا ہے۔ اور چوری ثابت ہو گئی تو چور کا ہاتھ نیچے کے جوڑ سے کاٹا جائے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ﴾
[المائدة: 38]
”چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دو! یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا یہ عذاب اللہ کی طرف سے ہے۔“
اسی طرح اگر ایک مسلمان مال اور جان کی دفاع میں مار ڈالا گیا تو اس کا درجہ شہید کا ہے۔
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قتل دون ماله فهو شهيد
سنن ابن ماجه ، کتاب الحدود حدیث نمبر: 2580
”جو شخص اپنے مال کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہوگا۔ “
اصل دین خالص ہی انسانیت کے مسائل کا حل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین حق کو قائم کرے تاکہ ظلم اور بداخلاقی سے کراہتی اور سسکتی انسانیت کو سکون ملے۔