نبیﷺ کا اسماء بنت نعمان کو طلاق دینا اور لفظ سُوقَۃ کی وضاحت
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

1. مقدمہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے متعدد واقعات میں سے بعض روایات ایسی ہیں جن میں چند افراد یا گروہ نے مغالطے پیدا کرنے کی کوشش کی، یا ان میں موضوع و ضعیف روایتوں کا اضافہ کردیا۔ انہی میں سے ایک واقعہ اسماء بنت نعمان (المعروف جونیہ خاتون) کا ہے۔ ذیل میں اس واقعے کا قدرے تفصیلی جائزہ، صحیح و ضعیف روایات کی وضاحت اور چند اہم اعتراضات کے جوابات پیش کیے گئے ہیں۔

2. اصل روایت کا تعارف

صحیحین میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ایک خاتون سے کرایا گیا جس کا نام بعض روایات میں اسماء بنت نعمان آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو نہ پہچانتے ہوئے خوف یا گھبراہٹ کا اظہار کیا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کا مختصر تذکرہ موجود ہے:

  • صحیح بخاری: حدیث نمبر 5255 اور 5637
  • صحیح مسلم: حدیث نمبر 88

انہی روایات میں اختصار کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اس خاتون نے لاعلمی اور گھبراہٹ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:

اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ ”میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِیْمٍ ”آپ نے بہت عظیم ذات کی پناہ مانگ لی۔“

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کپڑوں کا ایک جوڑا دے کر ان کے گھر والوں کی طرف واپس بھیج دیتے ہیں۔

3. قصے کا مختصر بیان

  1. کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خاتون کے بارے میں اطلاع دی۔
  2. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور یہ بنی ساعدہ کے ایک محل میں تشریف لائیں۔ ان کے ساتھ ان کی مربیہ (دایہ/نگران) بھی تھیں۔
  3. جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ہمراہ وہاں پہنچے تو صحابہ کرام کو باہر ٹھہرایا اور خود اندر داخل ہوئے تاکہ اپنی زوجہ سے ملاقات فرما سکیں۔
  4. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی الجھن دور کرنے کی کوشش فرمائی، لیکن وہ آپ کو بادشاہ نہ سمجھتیں اور خود کو "ملکہ” خیال کرتی تھیں، اس لیے انہوں نے حیرت سے کہا:

    هَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ لِلسُّوقَةِ؟ ”کیا کوئی ملکہ (خود کو) غیر بادشاہ کے سپرد کرسکتی ہے؟“

  5. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دستِ شفقت بڑھایا تو گھبراہٹ کی وجہ سے بولیں:

    اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ ”میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔“

  6. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے بہت عظیم ذات کی پناہ مانگ لی۔ چنانچہ آپ واپس تشریف لے آئے اور حکم فرمایا کہ انہیں چند کپڑے تحفے میں دے کر ان کے گھر والوں تک پہنچا دیا جائے۔
  7. بعد میں جب انہیں بتایا گیا کہ یہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تو وہ سخت پریشان ہوئیں اور افسوس کرنے لگیں کہ یہ میری بدقسمتی تھی جو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکی۔

4. ”سُوقَۃ“ کے معنی اور مغالطوں کا ازالہ

بعض مستشرقین یا کم علم افراد نے ”سُوقَۃ“ کا ترجمہ ”بازاری“ کیا ہے اور اسے گستاخی پر محمول کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ علمی لحاظ سے درست نہیں۔ عربی لغت میں:

  • امام ابن منظور افریقی (صاحبِ لسان العرب) فرماتے ہیں:

    ”بہت سے لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ سُوقۃ سے مراد ’بازاری‘ لوگ ہیں، حالانکہ سُوقۃ ان افراد کو کہتے ہیں جن کے پاس بادشاہت نہیں ہوتی۔“
    (لسان العرب: ج 10، ص 166)

  • امام ابن اثیر لکھتے ہیں:

    ”السُّوقَةُ من الناس: العامّة والرّعاع“ ”سوقہ سے مراد عامۃ الناس اور رعایا ہے۔“
    (جامع الاصول لابن اثیر: 11/421)

  • امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ”والسُّوقة: من لَيْسَ بِمَلِكٍ.“ ”سوقہ وہ ہے جو بادشاہ نہ ہو۔“
    (کشف المشکل من الحدیثین الصحیحین: ص 602)

پس واضح ہوا کہ لفظ سُوقَۃ عربی میں صرف ”غیر بادشاہ“ یا ”عام آدمی“ کے لیے آتا ہے، نہ کہ ”بازاری“ کے معنی میں۔ عربی میں ”بازاری“ کہنا ہو تو عموماً اس کے لیے سَوْقِیّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، ”سُوقَۃ“ نہیں۔

5. ضعیف اور موضوع روایات کا جائزہ

قصے کے اصل حصے کے ساتھ بعض وضعی اور ضعیف روایات بھی مل گئی ہیں جن کا مقصد کسی نہ کسی طرح سے اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا یا اس میں ایسے اضافے کرنا تھا جن کی کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر:

  • قتیلہ نامی خاتون کے ساتھ نکاح کی روایت جسے بعض کتابوں میں کلبی نامی راوی نے بیان کیا ہے، وہ انتہائی ضعیف (بلکہ موضوع) ہے۔ محمد بن سائب کلبی کو محدثین نے کذاب قرار دیا ہے۔
  • امام ابن سعد رحمہ اللہ ”الطبقات الکبریٰ“ میں اس کا تذکرہ تو لائے ہیں لیکن ساتھ ہی محمد بن سائب کلبی کے بارے میں لکھتے ہیں:

    ”فِی رِوَایَتِہٖ ضَعِیفٌ جِدًّا“ ”اس کی روایت انتہائی ضعیف ہے۔“
    (الطبقات الکبریٰ: 6/342)

گویا اس جیسی روایتوں سے کسی قسم کا استدلال کرنا سرے سے درست نہیں۔ علماء کا اجماعی فیصلہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی ”قتیلہ“ نامی خاتون سے نکاح سرے سے ثابت ہی نہیں۔

6. اعتراضات اور ان کے جوابات

6.1 پہلا اعتراض:

”اس عورت نے پناہ مانگی، کیا یہ گستاخی اور توہینِ رسالت نہیں؟“

  • جواب: اس خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا۔ جب معلوم ہوا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں تو وہ خود سخت رنجیدہ ہوئیں کہ یہ کتنی بڑی بدبختی ہوئی کہ میں نے آپ کو نہ پہچانا۔ لہٰذا لاعلمی یا غلط فہمی کی وجہ سے پناہ مانگنا گستاخی کے زمرے میں نہیں آتا۔

6.2 دوسرا اعتراض:

”اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’سوقہ‘ کہا، کیا یہ بدتمیزی یا گستاخی نہیں؟“

  • جواب: جیسا کہ اوپر واضح ہوا، سُوقَۃ کا لفظ عربی میں ”غیر بادشاہ“ کے لیے ہے، نہ کہ ”بازاری“ کے معنوں میں۔ پھر وہ خود کو ”بادشاہ کی بیٹی“ یا ”ملکہ“ سمجھتی تھی تو اس نے اس تناظر میں کہا کہ ”کیا کوئی ملکہ خود کو ایک عام فرد کے حوالے کرسکتی ہے؟“ اس کے پس منظر میں توہین کا پہلو نہیں۔

6.3 تیسرا اعتراض:

”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بعد ایسا ایکشن کیوں لیا کہ فوراً اسے واپس بھیج دیا؟“

  • جواب: اس میں کسی سخت ایکشن کی بات نہیں ملتی۔ اصل واقعہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نفسیاتی کیفیت اور غلط فہمی دیکھ کر اسے کپڑے تحفے میں دیے اور اس کے اہل خانہ تک پہنچوا دیا۔ یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی دلیل ہے، نہ کہ کسی زور زبردستی کا اظہار۔

6.4 چوتھا اعتراض:

”یہ نکاح آخری عمر میں کیوں کیا، حالانکہ بعض نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازدواجی ذمہ داریوں سے معذوری محسوس کررہے تھے؟“

  • جواب: یہ سب قیاس آرائیاں ہیں جن کی کوئی صحیح سند یا دلیل نہیں ملتی۔ صحیح کتبِ احادیث میں کہیں نہیں آیا کہ یہ نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل آخری ایام میں کیا۔ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دینا اور پھر رجوع کا معاملہ بھی ایک الگ پس منظر رکھتا ہے، جسے اس قصے سے خلط ملط کرنا درست نہیں۔

7. حاصلِ بحث اور اسباق

  • یہ واقعہ ”اسماء بنت نعمان“ یا مشہورِ عام نام ”جونیہ خاتون“ کا ہے، جس کی اصل صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
  • گھبراہٹ یا لاعلمی کی بنیاد پر ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگنا گستاخی نہیں قرار پاتا، کیونکہ بعد میں انہیں شدید افسوس ہوا۔
  • لفظ ”سُوقَۃ“ کے معنی میں مغالطہ کرکے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین بنانا انتہائی کم فہمی یا علمی بددیانتی ہے۔
  • واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس موقع پر طرزِ عمل نہایت اعلیٰ اور نرم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتون کو زبردستی روکنے کے بجائے عزت و اعزاز کے ساتھ انہیں تحفہ دے کر رخصت فرما دیا۔
  • بعض ضعیف یا موضوع روایات مثلاً کلبی کی روایتِ ”قتیلہ“ وغیرہ کو بنیاد بناکر بڑے بڑے نتائج اخذ کرنا درست نہیں، کیونکہ وہ سراسر ناقابلِ اعتماد ہیں۔

8. اختتامی کلمات

یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی ایک عمدہ مثال ہے کہ ایک اجنبی اور گھبرائی ہوئی خاتون کو کسی قسم کی سختی کے بجائے نہایت نرمی سے رخصت کیا اور ان کی کفالت کا خیال رکھا۔ اس واقعے میں ہرگز کوئی ایسا پہلو نہیں نکلتا جو توہینِ رسالت یا گستاخی پر دلالت کرے۔ عربی لغت اور صحتِ سند کے پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو اس قصے سے ملحق تمام استشراقی یا مغرضانہ اعتراضات کا بآسانی جواب دیا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھی راہ پر قائم رکھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ سے صحیح رہنمائی لیتے ہوئے آپ کے اخلاق کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1