حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سب سے اول جنت میں ابو بکر و عمر داخل ہوں گے۔ اور میں معاویہ کے ساتھ حساب دینے کے لیے رکا ہوں گا۔ [ميزان الاعتدال: 437/1۔ تنزيه الشريعة: 390/1۔ وذكره المغني فى تذكرة الموضوعات: 100]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اسے نقل کرنے والا اصبغ ہے۔ لیکن یہ وہ اصبغ بن نباتہ نہیں۔ بلکہ
یہ اصبغ ابو بکر الشیہبانی ہے۔ [المغني: 93/1۔ الضعفاء الكبير: 130/1۔ الضعفاء والمتروكين: 126/1] یہ سدی کا شاگرد اور تبع تابعین کے بعد ہے جب کہ پہلا اصبغ تابعی ہے۔ ذہبی کا بیان ہے کہ یہ مجہول ہے۔ اور اس کی یہ روایت منکر ہے۔
اصبغ نے اسے سدی سے نقل کیا ہے۔ اور سدی کے لقب سے وہ شخص مشہور ہیں۔ ہر دو کا حال پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ اور دونوں رافضی ہیں۔ باقی اس روایت میں ہم نے جو اعتراضات کیے ہیں۔ اصولی طور پر تو وہی اعتراضات وارد ہونے چاہئیں۔ لیکن اغلب گمان یہ ہے کہ ایسا ہونا بعید نہیں۔ اس لیے کہ ایک شیعہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ بولے گا یہ خلاف عقل ہے۔ مکن ہے کہ اس سلسلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا کچھ عندیہ ظاہر فرمایا ہو۔ اور اس صورت میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا تخیل ہوگا، ممکن ہے کہ قیامت کے روز ہر دو کا حساب ہو۔ یا دونوں معاف کر دئیے جائیں۔