میت کو غسل دینے کا مکمل شرعی طریقہ
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو غسل دینے کا واقعہ
سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو غسل دے رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو ۳، ۵ یا ۷ بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری بار (پانی میں) کچھ کافور بھی ملا لو۔ اور غسل سے فراغت پر مجھے اطلاع کر دینا۔ غسل دائیں طرف اعضائے وضو سے شروع کرو‘‘ (سیدہ ام عطیہ کہتی ہیں) ہم نے (غسل دیتے وقت) اس کے بالوں کو کھولا اور ان کو دھویا پھر تین چوٹیاں گوندھیں اور ان کو پیچھے ڈال دیا۔‘‘
(بخاری، الجنائز، باب یجعل الکافور فی الاخر: ۸۵۲۱، مسلم، الجنائز، باب فی غسل المیت: ۹۳۹.)
اس حدیث سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:
❀ عورت کو غسل دینے والی عورتیں ہی ہوں گی۔
❀ عورت کے بالوں کو کھول کر دھونا اور پھر چوٹیاں گوندھنا مشروع عمل ہے۔
میاں بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’’اگر تم مجھ سے پہلے مر گئیں تو میں تمہیں غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا اور تم پر نماز جنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفن کروں گا۔‘‘
(ابن ماجہ، الجنائز، باب ما جاء فی غسل الرجل امرأتہ و غسل المراۃ زوجھا: ۵۶۴۱.)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’مجھے اگر اس بات کا پہلے خیال آجاتا جو بعد میں آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی بیویوں کے سوا کوئی غسل نہ دیتا۔‘‘
(ابن ماجہ، ما جاء فی الجنائز، غسل الرجل امرأتہ و غسل المراۃ زوجھا، ۴۶۴۱.)
ان روایات سے یہ واضح ہوتا ہے:
❀ یہ عقیدہ کہ میاں بیوی کا رشتہ وفات کے بعد ختم ہو جاتا ہے، غلط ہے۔
❀ شوہر بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور بیوی شوہر کو۔
❀ شوہر بیوی کو دیکھ سکتا ہے اور قبر میں اتار سکتا ہے۔
فقہی رائے
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’شرعی دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ بیوی اپنے شوہر کو غسل دے اور اسے دیکھے اور شوہر اپنی بیوی کو غسل دے اور اس کی طرف دیکھے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خود غسل دیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی کہ انہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ غسل دیں۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، جلد دوم، ص ۷۴.)
میت کو غسل دینے کا تفصیلی طریقہ
غسل میت کا طریقہ عمومی طور پر جنابت کے غسل جیسا ہے، البتہ اس میں اکرامِ میت کا خاص خیال رکھا جائے۔ تفصیل درج ذیل ہے:
➊ وفات کے فوراً بعد
❀ میت کی آنکھیں اور منہ بند کیے جائیں۔
❀ ہاتھ، پاؤں، بازو اور ٹانگیں سیدھی کر دی جائیں۔
❀ قمیص، بنیان وغیرہ اتار کر چادر سے بدن ڈھانپ دیا جائے۔
❀ اگر میت پر تعویذ، دھاگہ یا کوئی زیور ہو تو اتار دیا جائے۔
➋ غسل کی تیاری
❀ بیری کے پتے پانی میں ابال لیے جائیں، نیم گرم پانی استعمال کیا جائے۔
❀ لکڑی کا تختہ ایسی جگہ رکھا جائے جہاں پانی کا نکاس آسان ہو۔
❀ میت کو تختے پر لٹایا جائے، ناف سے گھٹنوں تک کپڑا ڈالا جائے۔
❀ غسل کے دوران شرمگاہ پر نظر نہ پڑے، نہ ہی بغیر کپڑے کے ہاتھ لگے۔
➌ زخم کی حالت میں احتیاط
❀ اگر جسم پر زخم یا پٹیاں ہوں تو نرمی سے ہٹائی جائیں۔
❀ روئی اور نیم گرم پانی سے زخموں کو نرمی سے صاف کیا جائے۔
❀ دائیں طرف سے آغاز کیا جائے، سوائے کسی خاص صورت کے۔
➍ استنجا
❀ میت کا پیٹ دو تین بار دبایا جائے تاکہ اندرونی نجاست نکل جائے۔
❀ بائیں ہاتھ پر دستانہ پہن کر پہلے مٹی کے تین ڈھیلوں سے پھر پانی سے استنجا کیا جائے۔
➎ دیگر صفائی
❀ ناک، منہ، دانت اور کانوں کی گیلی روئی سے صفائی کی جائے۔
❀ تاکہ وضو کے وقت تین سے زائد بار دھونا نہ پڑے۔
➏ وضو
❀ "بسم اللہ” کہہ کر مسنون وضو کرایا جائے۔
❀ سر کا مسح اور پاؤں بعد میں دھوئے جائیں۔
➐ مکمل غسل
❀ حسبِ ضرورت صابن استعمال کرتے ہوئے جسم کو تین، پانچ یا سات بار دھویا جائے۔
❀ آخری مرتبہ نہلاتے وقت پانی میں کافور شامل کیا جائے۔
❀ سب سے آخر میں پاؤں دھوئے جائیں۔