سوال: ہمارا شہر بزرگوں اور پیروں کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور ان کے عقیدت مند و مرید اپنے گاؤں یا شہرکے قبرستان کو چھوڑ کر سینکڑوں میل دور اپنی میت کو ہمارے شہر کے قبرستان میں عقیدت کی بنیاد پر دفن کرتے ہیں۔ ایک میت کو دفن کرنے کے ساتھ ساتھ کئی نئی قبریں فرضی بنا کر جاتے ہیں تاکہ ان میں اپنی اور میتیں دفن کریں گے ، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ (ریاض احمد، تونسہ شریف)
الجواب: سنت سے یہی ثابت ہے کہ میت جہاں فوت ہو اسے وہیں (اسی علاقہ میں) دفن کرنا چاہیے۔
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے :
”ہم نے اُحد کے دن مقتولوں کو (جنت البقیع میں) دفن کرنے کے لئے اٹھایا تو ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ مقتولین کو ان کی جائے قتل پر ہی دفن کرو۔ “
[سنن ابي داود:۳۱۶۵، ترمذي: ۱۷۱۷، وقال : حسن صحيح نسائي ۷۹/۴ ، ابن ماجه: ۱۵۱۶ ]
اسے ابن الجارود (۵۵۳) ابن حبان (۷۷۴،۷۷۵) اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے ۔
اس کا راوی نبیح العنزی ثقہ ہے ۔ دیکھئے :
[كتب الرجال و نيل المقصود ۱۵۳۳]
ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو جب دور سے لا کر مکہ میں دفن کیا گیاتو ام المومنین نے فرمایا : ”اگر میں (یہاں) موجود ہوتی تو عبدالرحمٰن کو وہیں دفن کر دیا جاتا جہاں فوت ہوا تھا۔ “
[سنن ترمذي ح ۱۰۵۵، مصنف عبدالرزاق ۵۱۷/۳ ح ۶۵۳۵ و سنده صحيح و اللفظ له]
اس قسم کے دیگر آثار بھی ہیں دیکھئے : [السنن الكبريٰ للبيهقي ج ۵۷/۴]
وغیرہ ۔ (شہادت، جولائی ۱۹۹۹ء)