میت کو غسل دینے کا مسنون طریقہ
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

● قریب المرگ شخص کو کلمہ طیبہ کی تلقین :

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لقنوا موتاكم لا إله إلا الله
’’قریب المرگ آدمی کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔“
صحیح مسلم کتاب الجنائز، رقم: ٩١٧،٦٩١٦.

کیوں کہ جس کی زندگی کا آخری کلمہ لا الہ الا اللہ ہوا وہ جنت میں جائے گا۔
سنن ابوداؤد، کتاب الجنائز، رقم : ٣١١٦.

● مرنے والے کے پاس سورہ یسین پڑھنا :

مرنے والے کے پاس سورۃ یسین پڑھنا سنت سے ثابت نہیں۔ اور جس روایت میں سورہ یسین پڑھنے کا ذکر آیا ہے وہ ضعیف ہے۔
التلخيص الحبير : ١٠٤/٢ – إرواء الغليل : ٣/ ١٥٠ ، رقم : ٦٨٨.

● میت کو بوسہ دینا :

میت کو بوسہ دیا جا سکتا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے رسول اللہ ﷺ کی وفات پر آپ کو بوسہ دیا اور رونے لگے۔
صحیح بخاری کتاب الجنائز، رقم : ١٢٤١، ١٢٤٢.

● میت کا عنسل :

(۱) انگوٹھی ، گھڑی ، تعویذ ، یا کپڑا وغیرہ ہو تو اتار دیا جائے۔
(۲) میت کے جسم پر ناف سے گھٹنوں تک کوئی کپڑا ڈال دیں، پھر اس کے کپڑے اتار دیں۔ دوران غسل میں سوائے مجبوری کے میت کی شرمگاہ پر نہ نظر ڈالیں اور نہ کپڑے کے بغیر ہاتھ لگائیں۔
(۳) سب سے پہلے میت کا پیٹ دو تین دفعہ آہستہ آہستہ دبایا جائے۔ پھر ہاتھ پر کپڑے کا دستانہ وغیرہ چڑھا کر پانی سے استنجا کروائیں۔
(۴) ناک، دانت، منہ اور کانوں کو گیلی روئی سے اچھی طرح صاف کریں تا کہ وضو کے دوران میں تین دفعہ سے زیادہ نہ دھونا پڑے۔
(۵) میت کو غسل دیتے وقت دائیں جانب سے اور وضو کے اعضاء سے ابتدا کریں۔
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : ١٢٥٥ – صحیح مسلم، کتاب الحيض، رقم: ۳۳۸ وكتاب الجنائز، رقم : ٩٣٩/٤٢.

● میت کے متعلقہ ضروری مسائل :

(۱) غسل دیتے ہوئے پانی میں بیری کے پتے ڈال کر ابالا جائے اور اس سے غسل دیا جائے (صابن یا شیمپو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔)

(۲) آخر میں کچھ خوشبو ملا لی جائے، کافور ہو تو اچھی ہے۔

(۳) عورت کی مینڈھیاں کھول کر اچھی طرح دھونی چاہئیں۔

(۴) غسل کے بعد عورت کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنا کر پیچھے کی طرف ڈال دینی چاہئیں۔

(۵) غسل تین، پانچ، سات یا ضرورت کے تحت اس سے زیادہ بار بھی دیا جاسکتا ہے، لیکن طاق عدد کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : ١٢٥٣، ١٢٦٣ ـ صحيح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: ۹۳۹ .

(۶) مردوں کو مرد اور عورتوں کو عورتیں غسل دیں۔
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : ١٢٥٣ – صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: ٩٣٩.

● میاں بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا :

میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا :
لو مت النها قبلي لغسلتك
’’اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہوگئی تو میں تجھے غسل دوں گا۔‘‘
سنن ابن ماجه، ابواب الجنائز، رقم: ١٤٦٥ – مسند احمد : ٢٢٨/٦ ـ صحیح ابن حبان، رقم: ٦٥٥٢

قاضی شوکانی لکھتے ہیں :
’’اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت جب مرجائے تو اسے اس کا خاوند غسل دے سکتا ہے اور اس دلیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بھی خاوند کو غسل دے سکتی ہے۔‘‘
نيل الاوطار: ٣١/٤

امیر محمد بن اسماعیل الصنعانی فرماتے ہیں :
’’شوہر اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے، اور جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔‘‘
سبل السلام : ٧٤١/٢-٧٤٢.

سیدنا علی المرتضیؓ نے اپنی اہلیہ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کو خود اپنے ہاتھوں سے غسل دیا۔
مسند الشافعی : ۲۱۱/۱ ۔ سنن دار قطنی، رقم : ۱۸۳۳ – السنن الكبرى للبيهقي : ٣٩٦/٣۔

امام ابن المنذر نے علقمہ، جابر بن زید، عبد الرحمن بن اسود، سلیمان بن یسار، ابوسلمہ بن عبد الرحمن، قتادہ، حماد بن ابی سلیمان، مالک، اوزاعی، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ جیسے کبار ائمہ سے یہی نقل کیا ہے کہ مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔
الاوسط لابن منذر : ٣٣٥/٥- ٣٣٦.

● ایک شبہ :

بعض لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ مرد وزن میں سے کسی ایک کے فوت ہو جانے سے نکاح ختم ہو جاتا ہے، اور وہ آپس میں غیر ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظریہ کے حامل لوگ اپنی بیوی کی چار پائی کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔

● ازالہ :

یہ بات بالکل درست نہیں، اس کے کئی ایک دلائل ہیں۔

(۱) وراثت میت کی ہوتی ہے، اور قرآن پاک نے حصے بیان کرتے ہوئے زوج کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ضابطہ یہی ہے، موت سے پہلے جو خاوند بیوی کا آپس میں دیکھنا جائز تھا، اب بھی جائز ہے۔

(۲) عورت خاوند کی فوتگی کے بعد عدت گزارتی ہے، اُس کا عدت گزارنا اور سوگ میں رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں کا آپس میں میاں بیوی کا رشتہ ہے، ختم نہیں ہوا۔

● کفن کا بیان :

(۱) کفن اچھا اور جسم کو صحیح طرح چھپانے والا ہو۔
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم : ٩٤٣.

(۲) کفن کا کپڑا سفید ہونا چاہیے۔
سنن ابوداؤد، كتاب اللباس، رقم: ٤٠٦١ – سنن ترمذی، رقم: ۱۰۱۰

(۳) کفن میں تین کپڑے ہونے چاہئیں، ایک شلوار کی جگہ، دوسرا قمیص کی جگہ اور ایک بڑی چادر دونوں کے اوپر لپیٹنے کے لیے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں : ”یقیناً رسول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا، ان میں قمیص تھی نہ پگڑی۔“
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم : ۱۲٦٤، ۱۲۷۱ ، ۱۲۷۲ ، ۱۲۷۳، ۱۲۸۷ ۔ صحیح مسلم، كتاب الجنائز، رقم : ٩٤١.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!