منکرین حدیث کے مقرر کردہ معیار حدیث کا جائزہ
اصل مضمون فضیلۃ الشیخ عَبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

منکرین حدیث کا معیار حدیث

منکرین حدیث کے سربراہ پرویز صاحب نے رسالہ "طلوع اسلام” میں لکھا ہے: "آپ غور کریں کہ اگر احادیث و روایات کا انکار کر دیا جائے تو خود قرآن کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں گے۔ آخرکار، یہ بھی تو روایات ہی کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو موجودہ شکل میں ترتیب دیا۔”
[مقام حدیث، صفحہ: 340]

لہٰذا "طلوع اسلام” کو اپنی پسند کی روایات کے لیے کچھ اصول مقرر کرنے پڑے، جو یہ ہیں: "جہاں تک احادیث کا تعلق ہے، ہم ہر اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں جو قرآن کریم کے مطابق ہو، یا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت داغدار نہ ہو۔”
[طلوع اسلام کا مقصد و مسلک، شق نمبر: 14]

اس اقتباس سے تین اہم اصول سامنے آتے ہیں:

① حدیث قرآن کے مطابق ہو۔

② حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی قسم کا اعتراض نہ ہو جو آپ کی سیرت کو نقصان پہنچائے۔

③ یہ اصول کبار صحابہ رضی اللہ عنہم پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔

معیار اوّل: قرآن کے مطابق ہونا

اس اصول پر چند اعتراضات اٹھتے ہیں:

  1. قرآنی مطابقت کی افادیت: اگر حدیث قرآن کے مطابق ہے تو اس کی تصدیق کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ کیا قرآن خود کافی نہیں؟ قرآن کو اپنی صداقت کے لیے حدیث کی ضرورت کیوں ہے؟
  2. روایات کا کردار: جو روایات قرآن کی ترتیب اور اس کی محفوظیت کا ذکر کرتی ہیں، ان کو آپ کس بنیاد پر صحیح سمجھتے ہیں؟ مثال کے طور پر، نماز کی تعداد پانچ ہے، یہ کس آیت سے ثابت ہے؟ ایسی احادیث کو "طلوع اسلام” کے نزدیک کیسے دیکھا جائے گا؟
  3. قرآنی مفہوم کی تشریح: قرآن الفاظ کا مجموعہ ہے اور جب تک ان کا مطلب نہ سمجھا جائے، یہ واضح نہیں ہوتا کہ کون سی حدیث قرآن کے مطابق ہے۔ "طلوع اسلام” کے مطابق قرآنی مفہوم کو صحیح سمجھا جاتا ہے، جو وقت کے ساتھ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایک ہی حدیث کسی وقت صحیح اور دوسرے وقت مردود ہو سکتی ہے۔
  4. آیات کے بظاہر تضاد: اگر قرآن کی ایک آیت دوسری سے متصادم لگے تو کیا کیا جائے؟ مثلاً:
    • "إنك لا تهدى من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء”(القصص: 28: 56)
      یعنی: "اے محمد! تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔”
    • "و إنك لتهدئ إلى صراط مستقيم”
      (الشورى: 42: 52)
      یعنی: "اور بے شک (اے محمد!) تم سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہو۔”

    جبر و قدر کی آیات میں بھی بظاہر تضاد نظر آتا ہے۔ ہم قرآن کی بنیاد پر یہ مانتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں، لہٰذا ان مقامات پر ہم تاویل سے تطبیق پیدا کرتے ہیں۔

قرآن کی آیات کا باہمی مفہوم

مصنف رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی دو آیات کا حوالہ دیا ہے:

  • پہلی آیت: سورہ القصص، آیت نمبر 56: "اے نبی! جس کو آپ پسند کریں، اسے ہدایت دینے کا اختیار آپ کے پاس نہیں ہے، بلکہ یہ اختیار اللہ کے پاس ہے۔”اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے دل میں ہدایت کا نور پیدا کرنا، اسے صراط مستقیم پر چلانا، اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا انتقال ہو رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ کلمہ توحید پڑھ لیں تاکہ ان کی شفاعت کی جا سکے۔ تاہم، دیگر قریشی رؤسا کی موجودگی کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لا سکے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ ہدایت دینا اللہ کا اختیار ہے، نہ کہ انسان کا۔
    [صحیح البخاری: کتاب التفسیر: باب إِنَّكَ لَا تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ، 4772، صحیح مسلم: کتاب الإيمان، باب الدليل، 24]
  • دوسری آیت: سورہ الشورى، آیت نمبر 52: "اے نبی! آپ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔”اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے ہیں، انہیں صحیح راستہ دکھاتے ہیں، تبلیغ و تعلیم دیتے ہیں، کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اور اچھائی کی تلقین اور برائی سے روکنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ قرآن کی دیگر آیات بھی اس آیت کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، جیسے:
    • "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے، اسے پہنچا دیجیے۔”
      [سورہ المائدة: 67]
    • "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے بہترین طریقے سے بات کرو۔”
      [سورہ النحل: 125]
    • "اے کپڑا اوڑھنے والے، اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو ڈرائیے، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کریں۔”
      [سورہ المدثر: 1-3]

مثال دوم: قیامت کے روز سوالات

  • سورہ الحجر کی آیت: "اے نبی! آپ کے رب کی قسم، ہم ان سب سے ان کے اعمال کے بارے میں ضرور سوال کریں گے۔”
    [سورہ الحجر: 15:92-93]
  • سورہ الرحمن کی آیت: "اس دن نہ انسان سے اس کے گناہوں کا سوال کیا جائے گا اور نہ جنات سے۔”
    [سورہ الرحمن: 55:39-41]
  • پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص سے ان کے اعمال کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ انہوں نے کون سے اعمال کیوں کیے۔ جبکہ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ان سے ان کے گناہوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ بظاہر یہ دونوں آیات متضاد لگتی ہیں، مگر ان کے مفہوم کو سمجھنے سے یہ تضاد ختم ہو جاتا ہے۔
    • پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا، یعنی انہیں ان کے برے کاموں کے بارے میں جوابدہ بنایا جائے گا۔
    • دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گناہوں کے بارے میں دریافت نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ان کا ریکارڈ پہلے سے اللہ کے پاس موجود ہوگا۔ اس لیے انہیں براہ راست ان کے چہروں اور علامات سے پہچانا جائے گا اور جہنم میں بھیج دیا جائے گا۔

    اس طرح، قیامت کے دن سوالات کی نوعیت اور ان کے طریقے کو سمجھنے سے ان آیات کا بظاہر تضاد ختم ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں، اور اگر کہیں کوئی صحیح حدیث قرآن کی آیت سے متعارض نظر آئے تو اسے بھی اسی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ دونوں میں مطابقت پیدا ہو جائے۔

معیار دوم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین

اب یہ غور کریں کہ اگر قرآن کی کسی آیت سے بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کوئی حرف آتا ہو، تو اس کا کیا حل ہوگا؟ کیا ایسی صورت میں قرآن کی اس آیت کو بھی (نعوذ باللہ) رد کر دیا جائے گا؟ مثلاً، قرآن مجید میں یہ آیات موجود ہیں:

  1. سورہ عبس، آیت 1-2: "عبس وتولى، أن جاءه الأعمى”
    یعنی: "اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا جب اس کے پاس ایک نابینا آیا۔”
  2. سورہ الفتح، آیت 1-2: "إنا فتحنا لك فتحا مبينا، ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر”
    یعنی: "بے شک ہم نے آپ کو واضح فتح دی ہے تاکہ اللہ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے۔”
  3. سورہ بنی اسرائیل، آیت 74: "ولولا أن ثبتناك لقد كدت تركن إليهم شيئا قليلا”
    یعنی: "اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے، تو آپ تھوڑی سی ان کی طرف مائل ہو ہی جاتے۔”

منکرین حدیث کے لیے یہ سوال ہے کہ وہ ان آیات کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اگر یہی باتیں قرآن کی بجائے احادیث میں مذکور ہوتیں، تو وہ انہیں اپنے طے شدہ معیار کے تحت مردود قرار دیتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "طلوع اسلام” کا یہ معیار درست نہیں ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ بشری کمزوریاں اور بھول چوک انسانی فطرت کا حصہ ہیں، اور انبیاء بھی ان سے مکمل طور پر مبرا نہیں تھے۔ انبیاء کی عصمت کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی لغزش ہو جائے، تو اللہ تعالیٰ انہیں اس پر آگاہ کر دیتا ہے اور ان کی اصلاح فرماتا ہے۔

معیار سوم: توہینِ صحابہ رضی اللہ عنہم

اب آئیے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے اس معیار پر غور کریں۔ اگر قرآن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کچھ ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے بظاہر ان کی شان میں کمی کا تاثر ملتا ہو، تو کیا ان آیات کو بھی (نعوذ باللہ) رد کر دیا جائے گا؟ کچھ آیات ملاحظہ کریں:

  1. سورہ التحریم، آیت 4: "إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما”
    یعنی: "اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو تو (یہ بہتر ہے)، تمہارے دل کج ہو گئے ہیں۔”یہاں اللہ تعالیٰ دو ازواجِ مطہرات کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے ایک خاص واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں ان سے کچھ لغزش ہوئی۔ اس کے باوجود یہ واقعہ قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔
  2. سورہ احزاب، آیت 28: "يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن وأسرحكن سراحا جميلا”
    یعنی: "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی خواہش مند ہو، تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں اور تمہیں اچھے طریقے سے رخصت کر دوں۔”اس آیت میں ازواجِ مطہرات کی دنیاوی میلان کی مذمت کی گئی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ایک ناپسندیدہ امر کی نشاندہی کرتا ہے جس پر اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں آیات

قرآن مجید میں کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے بھی کچھ واقعات بیان کیے گئے ہیں جو بظاہر ان کی کسی کمزوری یا غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

  1. سورہ الجمعہ، آیت 11: "وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما”
    یعنی: "اور جب یہ لوگ کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھتے ہیں، تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔”
  2. سورہ الانفال، آیت 5-6: "وإن فريقا من المؤمنين لكرهون، يجادلونك في الحق بعد ما تبين كأنما يساقون إلى الموت وهم ينظرون”
    یعنی: "اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس بات کو ناپسند کرتا تھا اور آپ سے حق کے بارے میں جھگڑتا تھا، حالانکہ حق واضح ہو چکا تھا، جیسے انہیں موت کی طرف ہانکا جا رہا ہو۔”
  3. سورہ البقرہ، آیت 187: "علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم”
    یعنی: "اللہ نے جان لیا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے، پس اللہ نے تم پر توجہ فرمائی اور تمہارا قصور معاف کر دیا۔”
  4. سورہ آل عمران، آیت 152: "حتىٰ إذا فشلتم وتنازعتم في الأمر وعصيتم من بعد ما أراكم ما تحبون”
    یعنی: "یہاں تک کہ تم نے (جنگ اُحد میں) کمزوری دکھائی اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جھگڑا کیا اور اپنی پسندیدہ چیز (فتح کے آثار) دیکھ لینے کے بعد نافرمانی کی۔”

تشریح اور نتیجہ

ان آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کچھ ایسی غلطیاں کیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے، جیسے جمعہ کے خطبے کے دوران تجارت کی طرف متوجہ ہو جانا، جہاد سے گریز کرنا، یا جنگ اُحد میں کمزوری دکھانا۔ اگر ان واقعات کا ذکر قرآن میں ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی توہین مقصود تھی، بلکہ یہ ان کی اصلاح اور تعلیم کے لیے بیان کیے گئے ہیں۔

اگر "طلوع اسلام” کی اصولی سوچ کے مطابق، حدیث کے انکار کا معیار یہی ہے کہ وہ صحابہ کی توہین پر مبنی ہو، تو پھر قرآن میں موجود ان واقعات کا ذکر کیوں کیا گیا؟ اگر یہ واقعات احادیث میں بیان ہوتے تو انہیں یقینی طور پر موضوع اور ناقابل قبول قرار دیا جاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "طلوع اسلام” کا یہ معیار بھی کمزور ہے۔

علم و عقل کا معیار

پرویز صاحب کے بتائے گئے تین معیاروں کے بعد، ان کے استاد حافظ اسلم صاحب نے چوتھا معیار یہ بیان کیا کہ احادیث علم کے خلاف نہ ہوں۔ علم سے ان کی مراد جدید سائنسی علوم یا مشاہدات و تجربات ہیں، نہ کہ قرآنی علم۔ جب کہ پانچواں معیار یہ بیان کیا کہ احادیث عقل کے خلاف نہ ہوں۔

معیار چہارم: خلافِ علم نہ ہو

جہاں تک چوتھے معیار کا تعلق ہے، یعنی احادیث کا جدید سائنسی علوم یا مشاہدات و تجربات کے خلاف نہ ہونا، تو اس معیار کو پرکھنے کے لیے ہمیں قرآن مجید میں بیان کردہ تمام معجزات اور ماورائے فطرت واقعات پر غور کرنا چاہیے۔ انبیاء کے معجزات، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مردوں کو زندہ کرنا، یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کا واقعہ—یہ تمام جدید سائنسی علوم کے تناظر میں غیر معمولی ہیں۔ منکرینِ حدیث کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن میں بیان کردہ ان معجزات کا تو کھلم کھلا انکار نہیں کرتے، لیکن ان کی عجیب و غریب تاویلات پیش کرتے ہیں، جن پر علمی اور عقلی نقطۂ نظر سے گرفت کی جا سکتی ہے۔

تاہم، جب ایسے ہی واقعات احادیث میں بیان کیے جاتے ہیں تو منکرین حدیث انہیں فوراً ردّ کر دیتے ہیں اور انہیں غیر مستند قرار دیتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل ایک دوہرے معیار کی نشاندہی کرتا ہے، جو احادیث کے ساتھ منصفانہ برتاؤ سے روکتا ہے۔

معیار پنجم: خلافِ عقل نہ ہو

یہ معیار کہ کوئی حدیث عقل کے خلاف نہ ہو، محدثین نے بھی مقرر کیا ہے۔ محدثین نے حدیث کی صحت جانچنے کے بعد، اگر کوئی حدیث عقلی معیار پر پوری اترتی تھی، تو اسے قبول کر لیا۔ لیکن منکرین حدیث اکثر اپنی عقل کی بنیاد پر ان احادیث کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، چاہے محدثین انہیں صحیح ہی کیوں نہ قرار دیں۔ یہ فرق محدثین اور منکرین حدیث کی عقلی روش میں نمایاں ہے۔

  • محدثین اپنی عقل کو وحی الٰہی کے تابع رکھتے ہیں اور عقل کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیقات میں یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ وحی الٰہی (قرآن و حدیث) ہر صورت میں فوقیت رکھتی ہے۔
  • دوسری طرف، "طلوع اسلام” اور ان کے پیروکار عقل کی برتری اور فوقیت کے قائل ہیں، جس کی جڑیں معتزلہ کے نظریات میں ہیں۔ اگرچہ ان کا زبانی دعویٰ یہ ہے: "تنہا عقل انسانی زندگی کے مسائل کا حل دریافت نہیں کر سکتی۔ اسے اپنی رہنمائی کے لیے اسی طرح وحی کی ضرورت ہے جس طرح آنکھ کو سورج کی روشنی کی ضرورت۔”
    [طلوع اسلام کا مسلک، شق نمبر: 1]

لیکن عملی طور پر یہ گروہ عقل کو وحی پر مقدم رکھتا ہے، اور اس طرح عقل کے چراغ کو وحی کے سورج پر فوقیت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا مفصل جائزہ "آئینہ پرویزیت” میں کیا گیا ہے۔

عقل کے استعمال کی دلیل

منکرین حدیث قرآن سے یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں: "یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے (اور تو اور) آیات الٰہی بھی پیش کی جائیں تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔”
[سورہ الفرقان، آیت 73]

پرویز صاحب نے اس آیت کے ترجمہ میں اضافے کرتے ہوئے کہا: "(بلکہ عقل و فکر سے کام لے کر انہیں قبول و اختیار کرتے ہیں)”۔ لیکن اس اضافے کی بنیاد قرآن کے اصل الفاظ میں نہیں ہے۔ اصل آیت میں "ذُكِرُوا” کا ترجمہ "نصیحت کیے جاتے ہیں” ہے، نہ کہ "پیش کی جاتی ہیں”۔

اصل مفہوم

اس آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ جب مومنوں کو اللہ کی آیات سے نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان آیات پر غور کرتے ہیں اور ان سے سبق حاصل کرتے ہیں، بہرے اور اندھے نہیں بن جاتے۔ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آیات الٰہی کا عقل کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے اور پھر قبول یا رد کیا جائے۔

پرویز صاحب کا یہ استدلال کہ اگر آیات عقل کے مطابق ہوں تو انہیں قبول کریں ورنہ رد کر دیں، دراصل ایک کافر کی روش ہے، مسلمان کی نہیں۔ مومن کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ وحی الٰہی کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھے۔

قرآن اور عقل کا مقام

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی مقامات پر عقل و بصیرت کے استعمال کی تعلیم دی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ: "جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اس کے بعد مومن مرد یا عورت کا کچھ اختیار باقی نہیں رہتا۔”
[سورہ الاحزاب، آیت 34]

یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وہ مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک وہ اپنے اختلافات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قاضی نہ بنائیں اور پھر ان کا فیصلہ بغیر کسی جھجک کے تسلیم نہ کریں۔”
[سورہ النساء، آیت 65]

یعنی اس طرح کی آیات واضح کرتی ہیں کہ وحی الٰہی کے سامنے عقل کا استعمال محدود ہے اور وحی کے احکام پر عمل کے بعد عقل کے اعتراضات کو ترک کر دینا ضروری ہے۔ لیکن "طلوع اسلام” اس معیار کو بھی ٹھیک طرح سے اپنانے میں ناکام رہا اور وحی پر عقل کی برتری کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اگر قرآن میں یہ طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے، تو پھر احادیث ان کے معیار پر کیسے پوری اتر سکتی ہیں؟

خلاصہ: منکرین حدیث کے معیار اور ان کی خامیاں

منکرین حدیث نے احادیث کو قبول کرنے کے لیے چند اصول وضع کیے ہیں، جن میں چار بنیادی معیار شامل ہیں۔ ان معیارات کا مقصد یہ ہے کہ صرف وہ احادیث قبول کی جائیں جو قرآن، علم، اور عقل کے مطابق ہوں، یا جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں کوئی کمی نہ آتی ہو۔ لیکن ان معیارات کی پرکھ سے ان کی کئی کمزوریاں سامنے آتی ہیں:

  1. قرآن کے مطابق ہونا: منکرین حدیث کا کہنا ہے کہ صرف وہ احادیث قبول کی جائیں جو قرآن کے مطابق ہوں۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن کے مطابق ہے تو پھر اس کی ضرورت ہی کیوں؟ اور اگر قرآن کے مطابق نہ ہو تو کیا وہ ہمیشہ غلط ہوگی؟ ان کا یہ اصول احادیث کے حقیقی مقام کو کم تر کرنے کی کوشش ہے۔
  2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہ ہو: اس معیار کے تحت وہ احادیث مسترد کر دیتے ہیں جن میں بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی کمزوری یا بشری صفت کا ذکر ہو۔ لیکن قرآن میں بھی کچھ مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بشری تقاضوں کا ذکر موجود ہے، جیسے سورہ عبس میں نابینا صحابی کے واقعے کا ذکر۔ اگر یہی بات احادیث میں ہو تو منکرین حدیث انہیں فوراً رد کر دیتے ہیں۔
  3. صحابہ کرام کی توہین نہ ہو: منکرین حدیث کا یہ معیار بھی غیر مستحکم ہے۔ قرآن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعض واقعات بیان ہوئے ہیں جن میں ان کی بعض غلطیوں یا کمزوریوں کا ذکر موجود ہے، جیسے جنگ اُحد میں صحابہ کی کوتاہی کا ذکر۔ لیکن اگر یہ احادیث میں آتا تو یہ لوگ اسے مردود قرار دیتے۔ یہ طرزِ عمل دوہرے معیار کی نشاندہی کرتا ہے۔
  4. خلافِ علم نہ ہو: قرآن میں بیان کردہ معجزات اور ماورائے فطرت واقعات جدید سائنسی علوم کے مطابق نہیں ہیں، مگر منکرین حدیث ان کے لیے مختلف تاویلات پیش کر کے انہیں قبول کرتے ہیں۔ لیکن جب ایسے ہی واقعات احادیث میں آتے ہیں، تو انہیں فوراً موضوع کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے۔
  5. خلافِ عقل نہ ہو: محدثین نے بھی عقل کا استعمال کیا ہے، مگر ان کی عقل وحی کے تابع ہے۔ منکرین حدیث عقل کو وحی پر فوقیت دیتے ہیں، حالانکہ قرآن واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ وحی کے بعد عقل کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔

نتیجہ: منکرین حدیث کے یہ تمام معیار داخلی تضاد اور دوہرے رویے کا شکار ہیں۔ ان کا طرزِ عمل احادیث کی اہمیت کو کم کر کے وحی الٰہی کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش ہے، جو کہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق درست نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے