ملحدین کے قرآن پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول

حدیث کا متن:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"ابی بن کعب ہم میں سب سے بڑے قاری ہیں، لیکن جہاں ابی بن کعب غلطی کرتے ہیں، اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے تو قرآن مجید کو رسول اللّٰه کے دہن مبارک سے سنا ہے، اس لیے میں کسی کے کہنے پر اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ‘ہم جو بھی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں۔’”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب القراء من اصحاب رسول اللّٰه، حدیث: 5005)

حدیث کی تشریح:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف:

  • حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ "من لحن ابی” کا مطلب یہاں "من قول ابی” ہے، یعنی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی مخصوص قراءت مراد ہے۔
  • حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے جو قراءت رسول اللّٰہ ﷺ سے سنی تھی، اسے کسی اور کے کہنے پر چھوڑنے سے گریز کرتے تھے، کیونکہ وہ بذاتِ خود نبی ﷺ سے سن چکے تھے۔
  • قرآن مجید کو سات لہجوں (سبعہ احرف) پر پڑھنے کی اجازت تھی، جیسا کہ حدیثِ سبعہ احرف مشہور ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤقف:

  • حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی بعض قراءتیں منسوخ ہو چکی تھیں۔
  • تاہم، اس معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ پر کوئی سخت فتویٰ نہیں دیا، بلکہ ان کے موقف کو ایک عام انسانی بھول قرار دیا۔

نتیجہ:

  • "من لحن ابی” کا مطلب "غلطی” نہیں بلکہ ان کی قراءت ہے۔
  • یہاں "لحن” کو "غلطی” کے معنی میں بیان کرنا ملحدین کا دجل ہے۔
  • قراءت کے معمولی اختلافات کوئی بڑی بات نہیں تھی اور ان پر کسی قسم کی گمراہی کا فتویٰ لگانے کا جواز نہیں۔

"اللّٰہ الواحد الصمد” اور سورۃ اخلاص

حدیث کا متن:

رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:

"اَللّٰهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔”

(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل قل ھو اللّٰه احد، حدیث: 5015)

ملحدین کا اعتراض:

ملحدین کا دعویٰ ہے کہ "اللّٰهُ الوَاحِدُ الصَّمَدُ” سورۃ اخلاص کی کوئی آیت تھی جو تدوینِ قرآن کے وقت لکھنے سے رہ گئی۔

تبصرہ:

  • حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ "اللّٰہ الواحد الصمد” سورۃ اخلاص کی ایک آیت نہیں ہے، بلکہ یہ نبی ﷺ نے سورۃ اخلاص کی فضیلت بیان کرنے کے لیے صفاتِ باری تعالیٰ کا ذکر کیا۔
  • روایات سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے سورۃ اخلاص کو قرآن کا تہائی حصہ قرار دیا، اور "اللّٰہ الواحد الصمد” کا ذکر صفاتی وضاحت کے طور پر کیا۔
  • کسی صحابی نے ان الفاظ کو آیت قرار نہیں دیا اور نہ ہی تدوینِ قرآن کے وقت انہیں مصحف میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔

نتیجہ:

  • یہ کہنا کہ "اللّٰہ الواحد الصمد” کوئی گم شدہ آیت ہے، محض دھوکہ دہی اور جھوٹ ہے۔
  • حافظ ابن حجرؒ کے مطابق یہ الفاظ سورۃ اخلاص کی تفسیر کے لیے بیان کیے گئے، نہ کہ کسی آیت کے طور پر۔

سورۃ النساء کی آیت: "لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ”

موجودہ آیت:

"لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ”

"ایمان والے جو بغیر کسی عذر کے بیٹھ رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں، برابر نہیں ہیں۔”
(سورۃ النساء: 95)

ملحدین کا اعتراض:

ملحدین کے مطابق بعض راویوں کا کہنا ہے کہ یہ آیت اصل میں یوں نازل ہوئی تھی:

"لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ”

"ایمان والے جو بغیر کسی عذر کے بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں، برابر نہیں ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو معذور ہیں۔”
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، حدیث: 4990)

تبصرہ:

  • ملحدین نے جھوٹ بولا کہ بعض راویوں کے نزدیک آیت کی ترتیب مختلف تھی۔ حقیقت میں قراءت کا اختلاف صرف "غیر” کے فتح اور ضمّہ پڑھنے میں تھا، نہ کہ آیت کے الفاظ کی ترتیب میں۔
  • جب یہ آیت پہلی بار نازل ہوئی، تو اس میں "غیر اولی الضرر” شامل نہیں تھا۔ نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے اپنی معذوری کا ذکر کیا، تو یہ الفاظ بطور استثناء نازل ہوئے۔
  • حدیث کے الفاظ "فنزلت مکانھا” سے مراد آیت کے دوبارہ نازل ہونے کا مطلب نہیں، بلکہ اس میں ترمیم کے ساتھ موجودہ شکل میں مکمل ہونے کا اشارہ ہے۔

حافظ ابن حجرؒ کی وضاحت:

حافظ ابن حجرؒ نے صحیح بخاری کی تشریح میں وضاحت کی کہ آیت کے درمیان "غیر اولی الضرر” کا اضافہ بعد میں ہوا، جیسا کہ ترتیب کے مطابق آج موجود ہے۔ اس طرح، یہ اعتراض جھوٹ پر مبنی ہے۔

خلاصہ:

  • حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی "غلطی” درحقیقت منسوخ قراءت کا معاملہ تھا، اور "لحن” سے مراد ان کی قراءت تھی، نہ کہ کسی قسم کی گمراہی۔
  • "اللّٰہ الواحد الصمد” سورۃ اخلاص کی آیت نہیں بلکہ نبی ﷺ نے سورۃ اخلاص کی فضیلت بیان کرنے کے لیے بطور صفاتی وضاحت ذکر کیا۔
  • سورۃ النساء کی آیت "لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ” میں اختلاف کا اعتراض بے بنیاد ہے اور صرف قراءت کے معمولی فرق پر مبنی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے