امریکی عوام کا رویہ اور ملحدوں کی شکایت
رچرڈ ڈاکنز، ایک مشہور ملحد، اپنی کتاب کے آغاز میں امریکی عوام کے رویے پر گلہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک سروے کے مطابق، امریکی عوام کسی مسلمان یا ہم جنس پرست کو ووٹ دینا تو قبول کر لیتی ہے، لیکن کسی ملحد کو ووٹ دینے سے گریز کرتی ہے۔ عملی طور پر بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ امریکہ کے ایوانوں میں کوئی ملحد موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی سیاستدان ملحد ہونے کا اعتراف کر لے تو اس کی مقبولیت تیزی سے ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس، مسلمان یا یہودی سیاستدانوں کو عوام آسانی سے قبول کر لیتی ہے، جس پر ملحد برادری میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جاہل دہشتگردوں کو ترجیح دینا اور روشن خیال دانشوروں کو رد کرنا امریکی عوام کی کم ظرفی کو ظاہر کرتا ہے۔
ملحدوں کا رویہ اور عدم برداشت
لیکن اصل مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ جہاں ملحد اپنے آپ کو انتہا پسندی اور نفرت کے خلاف کھڑا سمجھتے ہیں، وہیں وہ خود نفرت اور عدم برداشت کو فروغ دینے میں آگے ہیں۔
- مسلمان اور ملحد، دونوں امریکی عیسائی عوام سے مختلف نظریات رکھتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے برعکس ملحدوں کا رویہ زیادہ جارحانہ اور غیر مہذب ہوتا ہے۔
-
مثال کے طور پر، عیسائیت اور اسلام کی تبلیغ کے لیے جو سائین بورڈ لگائے جاتے ہیں، ان پر مثبت اور اخلاقی پیغامات ہوتے ہیں، جیسے
"اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو”
یا
"ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔” - اس کے برعکس، ملحدوں کے بورڈز پر مذاہب کے خلاف نفرت انگیز جملے اور گالیاں لکھی ہوتی ہیں، جو ان کی عدم برداشت کو ظاہر کرتے ہیں۔
احتجاج اور ملحدوں کے غیر مہذب انداز
ملحدوں کے احتجاج کے طریقے بھی غیر روایتی اور غیر اخلاقی ہوتے ہیں۔
- وہ گرجا گھروں کے باہر ننگے ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مذہب مخالف نعرے لگاتے ہیں، جو کسی بھی مہذب دنیا میں ناقابل قبول ہے۔
- ان کے ٹی وی پروگرامز اور سوشل میڈیا پوسٹس میں بھی مذاہب کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ مقدس شخصیات کے کارٹون بناتے ہیں اور گالیاں دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
- لیکن جب مذہبی لوگ ان کو جواب دیتے ہیں تو یہی ملحد اخلاقیات اور انسانیت کے سبق دینا شروع کر دیتے ہیں۔
مختلف نظریات کے معاشرے میں اخلاقیات کی اہمیت
کسی معاشرے میں جہاں مختلف نظریات کے لوگ رہتے ہوں، اس طرح کا جارحانہ رویہ ناقابل قبول ہے۔
- بے جا تنقید اخلاقی دائرے سے باہر ہے، اور موقع و محل دیکھ کر بات کرنا ضروری ہے۔
- لیکن ملحد اکثر ہر وقت تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، جس سے وہ خود کو دانشور کے بجائے ایک "سڑا ہوا” انسان ظاہر کرتے ہیں۔
نتیجہ
کسی کے مذہب کو آزادی اظہار کے نام پر گالیاں دینا تو آسان ہے، لیکن اس کے بعد یہ توقع رکھنا کہ وہ شخص آپ کی عزت کرے گا، سراسر بےوقوفی ہے۔ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی رائے کے اظہار میں اخلاقیات کو مدنظر رکھے۔