مفسرین پر جھوٹ تھوپنے کی 3 خطرناک جسارتیں
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

مفسرينِ قرآن پر اپنی من مانی تعبیر تھوپنے کی جسارت

مفسر ابن جریر طبری پر بہتان کا رد

جھوٹے آدمی کو اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح مسٹر پرویز نے ’اللہ و رسول‘ جیسے مقدس الفاظ کو مرکزی حکومت کے مفہوم میں استعمال کر کے ایک بڑا جھوٹ بولا، اور اسے ثابت کرنے کے لیے دوسرا جھوٹ یہ گھڑا کہ مفسر ابن جریر طبریؒ نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا:

”یہ بات کہ قرآنِ کریم میں جہاں اس ضمن میں ’اللہ اور رسول‘ کے الفاظ آئے ہیں، اس سے مراد ’اسلامی نظام‘ ہے، ہماری اختراع نہیں؛ یہ خیال متقدمین کا بھی تھا، اور خود ہمارے زمانے کے مفسرین کا بھی ہے، مثلاً قرآنِ کریم کی آیت ہے:
﴿يَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہ وَالرَّسُوْلِ…﴾
اے رسول! تم سے پوچھتے ہیں انفال (مالِ غنیمت) کے متعلق، کہہ دو کہ انفال اللہ اور رسول کے لیے ہے۔
(قرآنی فیصلے از پرویز، ج2، ص222)

امام ابن جریر طبریؒ کا اصل موقف

امام طبریؒ، جن کی تفسیر کو اُم التفاسیر کہا جاتا ہے، نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد اپنا راجح قول یہ ذکر کیا:

”وأولى هذه الأقوالِ بالصواب في معنى الأنفالِ قول من قال هي زياداتٌ يزيدها الإمامُ لبعض الجيشِ أو جميعِهم“
(تفسیر طبری، ج6، ص168)

یعنی: انفال کے معنی کے متعلق ان تمام اقوال میں سے درست تر وہ قول ہے جس میں کہا گیا کہ یہ وہ اضافے ہیں جو امام وقت بعض یا پوری فوج کو دیتا ہے۔

پرویز کا تحریف پر مبنی موقف

مسٹر پرویز اس عبارت کا سہارا لے کر کہتے ہیں:

”یہاں انفال کے معنی سے بحث نہیں، مدعا صرف یہ ہے کہ ’اللہ و رسول‘ کی تفسیر انہوں نے امام وقت لکھی ہے-“
(قرآنی فیصلے از پرویز، ج2، ص222)

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امام طبریؒ نے نہ صرف اللہ و رسول کے الفاظ کی کوئی تفسیر امام وقت کے طور پر نہیں کی، بلکہ وہ تو صرف "انفال” کی تشریح کر رہے ہیں۔ ان کے الفاظ:

”قال أبوجعفر: اختلف أهل التأويل في معنى الأنفال“
(تفسیر طبری، ج6، ص168)

یعنی: امام طبریؒ کے نزدیک انفال کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے جسے وہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ”اللہ و رسول“ کی مراد میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں جسے وہ ذکر کریں، اور نہ ہی ان الفاظ سے مراد امامِ وقت یا مرکزی حکومت ہے۔

پرویز کی تاویلات اور تحریف

مسٹر پرویز نے لفظ "امام” کا ذکر دیکھ کر اسے اللہ و رسول کی تفسیر بنانے کی کوشش کی، حالانکہ امام طبریؒ کی پوری عبارت میں یہ واضح ہے کہ بات "انفال” کی تشریح پر ہو رہی ہے، نہ کہ "اللہ و رسول” کی۔

امام رازیؒ کی رائے کی تحریف

مسٹر پرویز کا امام رازیؒ کے حوالے سے دعویٰ

مزید پرویز صاحب امام رازیؒ کو اپنی بات کی تائید میں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”امام رازی نے آیت ﴿اِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ﴾ کے تحت امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
﴿اِذا قَتَل واَخَذَ المالَ فالإمام مُخَيَّرٌ فیه بين ثلاثةِ اشياءَ﴾
امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ ”اگر باغی یا ڈاکو نے قتل بھی کیا ہے اور مال بھی لیا ہے تو امام کو اختیار ہے کہ تینوں سزاؤں (قتل، قطع اور صلیب) میں سے جو سزا چاہے، دے-“
(قرآنی فیصلے، ج2، ص223)

پھر وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ امام رازیؒ کے نزدیک بھی "اللہ” سے مراد امامِ وقت ہے۔

امام رازیؒ کا اصل موقف

حالانکہ امام رازیؒ لفظ "اللہ” کو مخلوق میں کسی دوسرے پر استعمال کرنے کے سخت مخالف ہیں۔ ان کی وضاحت:

اَطبق جميعُ الخلق على أن قولنا ’اللہ‘ مخصوص باللہ سبحانہ وتعالى وكذٰلك قولنا ’الإلہ‘ مخصوص بہ سبحانہ وتعالىٰ
”اللہ تعالىٰ كى سارى مخلوق اس بات پر متفق ہے کہ لفظ اللہ ذات ِبارى تعالىٰ كے ساتھ خاص ہے، ايسے ہى لفظ ’الٰہ‘ اللہ تعالىٰ كے ساتھ مخصوص ہے-“
(تفسیر رازی: 1/163)

مزید وضاحت کرتے ہیں کہ:
”الخاصية الثانية أن كلمة الشہادة التى بسببہا ينتقل الكافر من الكفر إلى الإسلام لم يحصل فیہا إلا بہذا الإسم فلو أن الكافر قال: أشہد أن لا إلہ إلا الرحمٰن أو إلا الرحيم أو إلا الملك أو إلا القدوس، لم يَخرج من الكفر ولم يَدخل في الاسلام اما إذا قال: أشہد أن لا إلہ إلا اللّہ فإنہ يخرج من الكفر و يدخل فى الاسلام وذلك يدلّ على اختصاص ہٰذا الاسم بہذہ الخاصية“
”يعنى كلمہ توحيد جسے پڑھ كر كافر اسلام ميں داخل ہوتا ہے، وہ كلمہ ”لا إلہ الا اللہ “ ہے- اگر كوئى شخص لفظ ’اللہ‘ كى جگہ كوئى دوسرا نام ذكر كرے، اور لا الہ إلا الرحمٰن يا لا إلہ إلا الرحيم وغيرہ پڑہے تو وہ كفر سے نہیں نكلے گا اور نہ ہى دائرہ اسلام ميں داخل ہوگا-كفر سے نكل كر وہ مسلمان تب ہى کہلائے گا جب ”لا إلہ إلا اللّہ“ پڑہے اور یہ لفظ ’اللہ‘ كے ذاتِ بارى تعالىٰ كے ساتھ مخصوص ہونے كى دليل ہے-“
(التفسير الكبير از امام رازي: ج1، ص164)

یعنی کلمہ توحید میں لفظ "اللہ” کی جگہ کوئی دوسرا اسم استعمال کیا جائے تو وہ شخص مسلمان نہیں ہوتا۔

پرویز کی جہالت

امام رازیؒ کا یہ موقف واضح کرتا ہے کہ وہ لفظ "اللہ” کو صرف ذات باری تعالیٰ کے لیے مخصوص مانتے ہیں۔ اس کے باوجود مسٹر پرویز یہ کہہ رہے ہیں کہ امام رازیؒ کے نزدیک "اللہ” سے مراد امامِ وقت ہے، جو کہ سراسر جہالت اور گمراہی ہے۔

امام سیوطیؒ کی تفسیر کا غلط مفہوم

پرویز کا استدلال امام سیوطیؒ سے

پرویز صاحب امام سیوطیؒ کے حوالے سے بھی اپنے کفر کی تائید میں لکھتے ہیں:

”اسی آیت کی تفسیر میں علامہ جلال الدین سیوطیؒ الدُرّ المنثور میں یہ روایت درج کرتے ہیں:
”عن سعيد بن المسيب والحسن والضحاك في الآية قالوا: الإمام مخيّر في المحارب يصنع به ما شاء“
سعيد بن مسيب، حسن بصرى اور ضحاك علیہم الرحمہ نے کہا ہے کہ ’محارب‘ كے معاملہ ميں امام كو اختيار ہے کہ جو چاہے كرے- “
(قرآنی فیصلے: ج2، ص223)

پھر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

”ان حضرات کے اقوال سے دو باتیں ظاہر ہو گئیں، ایک یہ کہ ان کے نزدیک ’اللہ اور رسول‘ سے مراد امامِ وقت ہے …“
(قرآنی فیصلے: 2/224)

اصل حقیقت

امام سیوطیؒ کی مذکورہ عبارت میں "امام” سے مراد امیرالمؤمنین ہے، جسے اللہ و رسول کے خلاف بغاوت کرنے والے مجرم کو سزا دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس سے "اللہ و رسول” کی مراد امام وقت لینا صریحاً غلط اور خلافِ تفسیر ہے۔

پرویز کے مفروضے کا نتیجہ

اگر پرویز کے دعویٰ کو تسلیم کر لیا جائے تو:

◈ "اللہ اور رسول” سے مراد امامِ وقت ہوگا۔
◈ پھر امامِ وقت اپنے خلاف بغاوت کرنے والے مجرم کو خود سزا دے گا۔
◈ یعنی مدعی، قاضی اور جلاد – تینوں کردار ایک ہی شخص کے ہوں گے۔

یہ عمل نہ قرآن کے مطابق ہے، نہ اسلامی عدل کے اصولوں کے۔

نتیجہ کلام

مسٹر پرویز نے مفسرین کے اقوال کو اپنی مرضی سے موڑنے کی کوشش کی۔

امام طبریؒ، امام رازیؒ، امام سیوطیؒ – تینوں کے اقوال کو توڑ مروڑ کر اپنے کفریہ نظریات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔

ان مفسرین نے کہیں بھی "اللہ و رسول” کی مراد امامِ وقت یا حکومت نہیں لی۔

پرویز نے ان حضرات کی تحریرات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر، اور ان کے منہج تفسیر کے برخلاف استعمال کیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1