مغرب کے فرضوں سے پہلے دو سنتیں (غیر مؤکدہ)
یہ اقتباس ابو عدنان محمد منیر قمر نواب الدین کی کتاب نماز پنجگانہ کی رکعتیں مع نماز وتر و تہجد سے ماخوذ ہے۔

نماز مغرب کے فرضوں کے بعد دو سنتیں تو مؤکدہ ہیں، جن کا ذکر سنن راتبہ کے ضمن میں ہو چکا ہے۔ مغرب کے فرضوں سے پہلے بھی دو رکعتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ اگرچہ وہ غیر مؤکدہ ہیں، لیکن ان کا ادا کرنا سنت و مستحب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل کیا اور لوگوں کو ان کا حکم فرمایا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ دو رکعتیں بڑی کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ لیکن آج مسلمانوں کی اکثریت اس سنت کو چھوڑے ہوئے ہے، اور اگر کوئی شخص اس پر عمل کرتا ہے تو اسے تعجب سے گھور اور معیوب سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان دو رکعتوں کا ثبوت متعدد صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین سے ملتا ہے۔ مثلاً:

حدیث نمبر 1:

صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری و مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وابن ماجہ میں اسی طرح دارقطنی وابن خزیمہ میں ارشاد نبوی ہے:
بين كل أذانين صلاة، بين كل أذانين صلاة
ہر اذان و اقامت کے مابین دو رکعت نماز ہے، ہر اذان و اقامت کے مابین (دو رکعت) نماز ہے
راوی حدیث حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وقالها ثلاثا وقال فى الثالثة لمن شاء
بخاری مع الفتح 102/2 و 110/2، مسلم مع النووی 124/6، ابوداؤد مع العون 22/4، ترمذی مع التحفہ 548/1، ابن ماجہ 368/1، ابن خزیمہ 266/2، دارقطنی 266/1، نسائی 28/2
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ کہے اور تیسری مرتبہ یہ بھی فرما دیا کہ جس کا جی چاہے پڑھے (یعنی مؤکدہ نہیں ہیں)
کبار علماء احناف میں سے علامہ سندھی ابن ماجہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں جو حکم دیا گیا ہے اس کا عموم نماز مغرب کو بھی شامل ہے، اور حدیث انس رضی اللہ عنہ وغیرہ میں تو مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کی واضح صراحت موجود ہے، لہذا اس عمل کو مکروہ کہنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔
حاشیہ ابن ماجہ بحوالہ المرعاة 100/2
حاشیہ نسائی میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتوں کے جواز بلکہ ندب و استحباب پر دلالت کرتی ہیں۔
حاشیہ نسائی للسندھی مع شرح السیوطی 28/3/1، ابن خزیمہ طبع دار الفکر بیروت
علماء احناف میں اختلاف ہے، بعض نے انہیں مستحب کہا ہے، جیسا کہ علامہ سندھی وغیرہ ہیں۔ الکوکب الدری میں صحیح اسے ہی قرار دیا گیا ہے کہ اگر ان سے تکبیر تحریمہ کے چھوٹنے کا اندیشہ نہ ہو تو ان کا پڑھنا مستحب ہے۔
الکوکب الدری 103/1 بحوالہ فقہ السنہ اردو 253/1
عرب ممالک میں اذان مغرب کے بعد باقاعدہ دو رکعتوں کے لیے وقفہ دیا جاتا ہے اور تکبیر تحریمہ چھوٹنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس طرح گویا یہاں احناف کے نزدیک بھی یہ دو رکعتیں مستحب ہیں۔

حدیث نمبر 2:

علامہ سندھی نے جس حدیث انس رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ صحیح بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور مسند احمد و دارقطنی میں ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
كنا بالمدينة فإذا أذن المؤذن لصلاة المغرب ابتدروا السواري فيركعون ركعتين ركعتين
بخاری مع الفتح 771/2، مسلم مع النووی 123/6، ابن ماجہ 368/1، ابن خزیمہ 226/2، دارقطنی 267/1
مدینہ منورہ میں ہم لوگوں کی عادت تھی کہ جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو سب لوگ دوڑ کر ستونوں کی آڑ میں دو رکعت پڑھا کرتے تھے
مسلم وغیرہ میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ لوگ ان دو رکعتوں کو اتنی کثرت سے پڑھا کرتے تھے کہ اگر کوئی نیا آدمی مسجد میں آتا تو سمجھتا کہ فرض نماز پڑھی جاچکی ہے اور لوگ شاید بعد والی سنتیں پڑھ رہے ہیں۔
صحیح مسلم 123/2/3
بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ ستونوں کی آڑ میں یہ سنتیں پڑھتے تھے۔ بخاری و مسلم کی ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کی اکثریت کا عمل یہی تھا۔

حدیث نمبر 3:

اسی طرح صحیح بخاری شریف میں ارشاد نبوی ہے:
صلوا قبل صلاة المغرب
نماز مغرب سے پہلے (دو رکعت) نماز پڑھو .
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے اور تیسری مرتبہ فرمایا:
لمن شاء
جو چاہے پڑھے .
حضرت عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چاہے پڑھے اس لیے کہا کہ لوگ کہیں ان دو رکعتوں کو سنت مؤکدہ نہ سمجھ لیں۔ بخاری شریف میں تو مطلق صلوة ہے، جبکہ ابوداؤد وغیرہ میں صراحت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
صلوا قبل المغرب ركعتين
بخاری مع الفتح 337/3، 59/4
مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں پڑھو .

حدیث نمبر 4:

جبکہ صحیح مسلم و ابوداؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہم غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ راوی حدیث مختار بن غلفل پوچھتے ہیں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
وكان يرانا نصليها فلم يأمرنا ولم ينهنا
مسلم مع النووی 123/6/3، ابوداؤد مع العون 161/4
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں پڑھتے ہوئے دیکھتے تو نہ ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ اس سے منع فرماتے تھے
واضح بات ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک کام تو مکروہ ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع نہ فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منع نہ فرمانا دلیل استحباب کی ہے۔

حدیث نمبر 5:

اسی طرح بخاری شریف، مسند احمد، دارقطنی اور بیہقی میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی مذکور ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
إنا كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم
بخاری مع الفتح 59/3، دارقطنی 468/1
ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ (دو رکعتیں) پڑھا کرتے تھے

حدیث نمبر 6:

صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى قبل المغرب ركعتين
موارد الضمان زوائد ابن حبان، حدیث 617 ص 63، وأخرجه المروزی فی قیام اللیل کما فی نصب الرایہ 41/2، عون المعبود 162/2، تحفہ الاحوذی 552/1، تعلیق المغنی 266/1، بلوغ المرام مع سبل السلام 5/2، طبع بیروت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں۔

حدیث نمبر 7:

دارقطنی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من صلاة مكتوبة إلا بين يديها ركعتان
دارقطنی 267/1، المروزی فی قیام اللیل ص 26، صحیح ابن حبان، نصب الرایہ 142/2، تعلیق المغنی 266/1، ابن خزیمہ 548/2، ترمذی 538/1
ہر فرض نماز کے پہلے دو رکعت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1