مغرب سے پہلے دو رکعتوں سے متعلق قولی، فعلی اور تقریری احادیث
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد قولی، فعلی اور تقریری احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مستحب ہے۔ ان پر عمل کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے اور اس سے محبتِ رسول کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں تین اقسام کی ہیں:

  • قولی سنت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ احادیث۔
  • فعلی سنت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اعمال۔
  • تقریری سنت: وہ اعمال جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیے گئے اور آپ نے ان کی اجازت دی۔

مغرب سے پہلے دو رکعتوں سے متعلق قولی احادیث

مثال 1:

سیدنا ابو سعید عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو،” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات دو بار فرمائی اور تیسری بار فرمایا، "جو چاہے پڑھ لے” تاکہ لوگ اسے لازمی نہ سمجھ لیں۔
(صحیح بخاری: 1/157، حدیث: 1183؛ سنن ابی داؤد: 1281)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ان رکعتوں کے استحباب کی نفی نہیں بلکہ ان کا مستحب ہونا ثابت کرنا ہے۔
(فتح الباری: 3/60)

مثال 2:

سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو۔”
(سنن ابی داؤد: 1/182، حدیث: 1281، سند صحیح)

مثال 3:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے، اس کے لیے جو چاہے۔”
(صحیح بخاری: 1/87، حدیث: 624؛ صحیح مسلم: 1/287، حدیث: 838)

مغرب سے پہلے دو رکعتوں سے متعلق فعلی احادیث

مثال 4:

سیدنا عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں خود ادا کیں۔
(صحیح ابن حبان: 1588، سند صحیح)
علامہ مقریزی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
(اختصار قیام اللیل للمقریزی: 64)

مغرب سے پہلے دو رکعتوں سے متعلق تقریری احادیث

مثال 5:

مرثد بن عبداللہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کے عمل کی تعریف کرتے تھے۔
(صحیح بخاری: 1/158، حدیث: 1184)

مثال 6:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھتے تھے لیکن نہ روکتے اور نہ ہی حکم دیتے تھے۔
(صحیح مسلم: 1/278، حدیث: 836)

مانعین کی دلیل اور اس کا جواب

دلیل 1:

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب سے پہلے کسی کو نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
(سنن ابی داؤد: 1/182، حدیث: 1284)

تبصرہ:

یہ روایت اس بات کی نفی کرتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ عمل نہیں دیکھا، جبکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے اس عمل کا مشاہدہ کیا۔ اصول کے مطابق جس نے مشاہدہ کیا، اس کی بات حجت ہوتی ہے۔

دلیل نمبر 2:

امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا:
"أنا سمعت من علماء المدينة يكرهون الركعتين قبل المغرب ولم يجدوا لهما سنة”
(کتاب الأم للشافعی: 1/102)

تبصرہ:

امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ بیان دراصل اہل مدینہ کے بعض علما کا موقف بیان کرتا ہے، جو مغرب سے پہلے دو رکعت نفل کو مستحب نہیں سمجھتے تھے۔ تاہم، یہ اختلاف ایک رائے پر مبنی ہے، اور دیگر احادیث اور آثار اس کے مخالف ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے دیگر جگہوں پر مغرب سے پہلے نفل نماز کو مکروہ نہیں سمجھا، بلکہ اس کی فضیلت اور استحباب کے حوالے سے دلائل کو بھی تسلیم کیا ہے۔

دلیل نمبر 3:

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إن الصلاة قبل المغرب مكروهة لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يلزمها ولم يعرف عمل الصحابة بها”
(موطا امام مالک: باب ما جاء فی الصلاۃ قبل المغرب)

تبصرہ:

امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ان کی فقہی تعبیر پر مبنی ہے، جس میں وہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کی نماز کو جلدی پڑھنا افضل ہے اور اس میں تاخیر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ تاہم، یہ ان احادیث کی نفی نہیں کرتا جو مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں۔ دیگر فقہا نے امام مالک کے اس موقف کو قبول نہیں کیا اور ان احادیث کو ترجیح دی جن میں ان رکعتوں کا ذکر ہے۔

دلیل نمبر 4:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
"ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل المغرب شيئا”
(سنن ابن ماجہ: 1165)

تبصرہ:

یہ روایت بھی منفی شہادت پر مبنی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مغرب سے پہلے نفل نماز پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ اصولی طور پر مثبت شہادت کو منفی شہادت پر ترجیح دی جاتی ہے، یعنی اگر کسی نے مشاہدہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل کیا ہے تو اس کی بات کو فوقیت دی جائے گی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے مغرب سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا مشاہدہ کیا ہے، اس لیے ان کی روایت زیادہ قابلِ قبول ہے۔

دلیل نمبر5:

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
"سئل الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله عن الصلاة قبل المغرب فقال: لا أقول بها”
(المغنی لابن قدامہ: 1/439)

تبصرہ:

امام احمد رحمہ اللہ کا یہ موقف ان کے احتیاط پسند رویے کا عکاس ہے، جو بعض مواقع پر غیر ثابت شدہ نوافل کو مستحب قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔ تاہم، امام احمد نے ان دو رکعتوں کی نفی نہیں کی بلکہ ان کی تاکید کو قبول نہیں کیا۔ جبکہ دیگر محدثین اور فقہا نے ان احادیث پر عمل کو درست سمجھا ہے جو مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

دلیل نمبر 6:

سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ركعتان بعد المغرب أفضل”
(سنن الترمذی: 435)

تبصرہ:

اس روایت میں مغرب کے بعد دو رکعتوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے، لیکن اس سے مغرب سے پہلے دو رکعتوں کی نفی ثابت نہیں ہوتی۔ دراصل، یہ روایت مغرب کے بعد نفل نمازوں کی فضیلت کو بیان کرتی ہے، جبکہ مغرب سے پہلے کی نمازوں کا ذکر دیگر احادیث میں موجود ہے۔ دونوں کا حکم اپنی اپنی جگہ پر ہے، اور ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے۔

خلاصہ:

مانعین کی ان دلیلوں میں بعض صحابہ کا عمل اور بعض تابعین و فقہا کی آراء شامل ہیں، جن سے مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے عدم استحباب کی رائے ملتی ہے۔ تاہم، ان دلیلوں کا زیادہ تر انحصار منفی شہادت اور بعض آراء پر ہے۔ اس کے برعکس، مغرب سے پہلے دو رکعتوں کے استحباب کے حوالے سے مثبت احادیث اور آثار زیادہ مضبوط اور قابل ترجیح ہیں۔ سنت کی پیروی کے لیے ان احادیث کو بنیاد بنایا جانا چاہیے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل اور صحابہ کے عمل کا تذکرہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے