مغربی وسائل کا استعمال: احسان یا حق کی بازیابی؟
تحریر: ابوزید

’’مسلمان مغرب کے وسائل اور فراہم کردہ سہولتیں استعمال بھی کرتے ہیں اور ان پر تنقید بھی کرتے ہیں‘‘

یہ بیان نہ صرف حقیقت پر مبنی ہے بلکہ پہلی نظر میں کافی جاندار بھی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس نکتے کو سمجھنے کے لیے گہرائی میں جانا ضروری ہے۔

وسائل کا استعمال: مغربی معاشی مجبوری

پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے مغربی وسائل مانگ کر نہیں لیے۔ اگر ہمیں کچھ فراہم کیا جا رہا ہے تو یہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی مجبوری ہے، جسے مستقل طور پر نئی منڈیوں کی ضرورت ہے، اور اسی لیے وہ دنیا بھر میں اپنی مصنوعات بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔

مغربی خدمات کی قیمت

دوسری بات یہ ہے کہ مغرب جو بھی ہمیں دیتا ہے، اس کی پوری قیمت ہم سے وصول کرتا ہے۔ اس لیے مغرب کے پاس ہم پر احسان جتانے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔

استعماری دور کی میراث

تیسری بات یہ ہے کہ مغربی ترقی کا بڑا حصہ استعماری دور کی بنیاد پر ہے، جس میں مسلمانوں کی زمینوں سے لوٹے گئے وسائل نے مغرب کی مادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر مغرب اپنی کامیابیوں کا کچھ حصہ ہمیں بغیر معاوضہ کے بھی دیتا، تب بھی یہ ہمارے حق کے طور پر سمجھا جاتا۔ چہ جائیکہ وہ ہم سے پوری قیمت وصول کر کے ہمیں اپنی مصنوعات بیچتا ہے اور پھر احسان جتاتا ہے۔

وسائل کا زبردستی استعمال

چوتھی بات یہ ہے کہ جب مسلمان مغربی وسائل استعمال کرنے کے لیے نہ تیار تھے اور نہ ہی انہیں استعمال کرنا چاہتے تھے، تو مغرب نے اپنی سیاسی اور معاشی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہم پر مسلط کیا۔ ایسے میں مغرب کو ان وسائل کے لیے ہم پر احسان جتانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ بات ان دانشوروں کی ذہنی کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہے جو مغرب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آج جب ہم مغربی وسائل استعمال کرتے ہیں، تو اس دوران ہم مستقل طور پر اپنی تہذیب اور اقدار کو ان کے منفی اثرات سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تہذیبی دباؤ اور مغربی معیار

یہ حیرت کی بات ہے کہ جب دیندار طبقہ ریڈیو اور ٹیلیویژن کی مخالفت میں فتویٰ دیتا ہے تو انہیں تنگ نظر کہا جاتا ہے۔ لیکن جب وہ معاشی اور سیاسی دباؤ کے باعث مجبور ہو کر ان چیزوں کا استعمال کرتے ہیں تو پھر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مغربی تہذیبی اقدار کو بھی تسلیم کریں۔

مغربی وسائل کا اسلامی مقصد کے لیے استعمال

اصل بات کچھ اور ہے۔ مغربی وسائل کی ترقی نے آج مسلمانوں کی تعلیم یافتہ نسل کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ ان وسائل کو اسلام کی اشاعت کے لیے استعمال کر سکیں۔ آج اسلامی تحریکیں انہی مغربی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مغرب کے خلاف باقاعدہ موقف اختیار کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔

جدید وسائل کا استعمال: ایک نیا تناظر

یہی وہ طبقہ تھا جو پہلے مغربی وسائل کو ہم پر مسلط کرنے کے لیے بے تاب تھا اور آج وہی طبقہ ان علماء کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے جنہوں نے ریڈیو کو حرام قرار دیا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ اور فیس بک تک مسلمان خود کو تیار کر چکے ہیں۔ اب ان کی پریشانی وسائل کے استعمال یا عدم استعمال سے نہیں، بلکہ اس بات سے ہے کہ یہ وسائل مغرب کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ پہلے یہ ان کے لیے رکاوٹ تھے اور اب یہ ان کی پریشانی کا باعث ہیں کہ یہ وسائل انہی کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ایسی بے چینی صرف شکست خوردہ فریق کو ہی ہو سکتی ہے۔

مغربی وسائل کا مغرب کے خلاف استعمال

حقیقت میں مغرب کے جدید وسائل کو اسلام کی حفاظت، اشاعت اور اقامت کے لیے استعمال کرنا ایک بڑی پیش رفت ہے۔ اسے آپ مکافاتِ عمل کہہ سکتے ہیں، یا جدید زبان میں بقائے اصلح۔ مغربی ایجاد کردہ وسائل کا مغرب کے خلاف استعمال ہونا اور مغرب کا خود کو اس معاملے میں بے بس پانا اس بات کی دلیل ہے کہ مغرب وقت کی رفتار سے پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔

ایسی تہذیب جو ان وسائل کو جھوٹ پھیلانے، منطقی بات چیت کے بجائے کارٹون بنانے، آزادی کے نام پر بدگوئی کرنے اور فحاشی پھیلانے میں استعمال کرتی ہو، اس کے مقابلے میں مسلمان ان ہی وسائل کو اسلامی معلومات کی اشاعت، اسلامی اتحاد کی کوششوں، اور مغربی اقوام کے خلاف ایک معروضی اور منطقی مقدمہ بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تو مغرب اور اس کے نمائندہ دانشوروں کو پریشانی تو لاحق ہوگی۔

نتیجہ

الغرض، مغربی وسائل کا مغرب کے خلاف استعمال ہونا ان کی اپنی ناکامی کا ثبوت ہے۔ مغرب اور اس کے نمائندہ دانشور ان وسائل کی فراہمی پر ہم پر احسان نہ جتائیں۔ یہ وسائل ہم پر زبردستی مسلط کیے گئے تھے اور ان کی ترقی میں ہمارے ہی لوٹے گئے وسائل استعمال کیے گئے۔ ان کے نتیجے میں ہمارے معاشرتی نظام کو شدید نقصان پہنچا، اور آج جب ہم اس صدمے سے نکل کر دوبارہ کھڑے ہونے کے قابل ہو رہے ہیں، تو مغرب کو اپنی مظلومیت کا رونا رونے کے بجائے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے