ابتدائی گفتگو: الفاظ اور ان کا اثر
پرانے زمانے میں جنوں کا ذکر ہوتا تھا جو لوگوں پر مسلط ہو جاتے تھے۔ آج کے دور میں الفاظ کچھ ویسا ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک لفظ "تہذیب” ہے، جو ہمارے ذہنوں پر جن کی طرح سوار ہے۔ یہ لفظ سب سے پہلے سر سید احمد خان کے ذریعے مقبول ہوا، اور بعد میں علی گڑھ کی تعلیم اور جدیدیت کے پھیلاؤ کے ساتھ عام ہوتا گیا۔ آج یہ لفظ "ثقافت” اور "کلچر” کے مترادف کے طور پر ہر جگہ استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن، یہ سب الفاظ ہمارے ذہنوں میں ایک نفسیاتی الجھن کی علامت ہیں، جو ہماری اپنی روایات اور مغرب کے اثرات کے درمیان ایک تنازعہ کو ظاہر کرتے ہیں۔
مغربی تہذیب: ایک تثلیثی تصور
رینے گینوں کے مطابق، "تہذیب” کا تصور اٹھارہویں صدی کے آخر میں "ترقی” اور "مادیت” کے ساتھ ابھرا۔ یہ تینوں مغربی فکر کی تثلیث کی بنیاد پر قائم تھے۔ مغربی تہذیب کو "واحد حقیقی تہذیب” قرار دیا گیا جو سائنس کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ مغربی اقوام نے اسی بنیاد پر دنیا پر اپنی برتری قائم کرنے کی کوشش کی۔ سر سید احمد خان جیسے لوگ اس تہذیب کو قبول کرتے ہیں اور مقامی قوموں کو غیر مہذب سمجھنے لگتے ہیں۔
سر سید اور اقبال: دو مختلف زاویے
سر سید احمد خان:
- سر سید مغربی تہذیب کو برتر مانتے ہیں اور مسلمانوں کو مغرب کی تقلید کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
- ان کے نزدیک مغربی ہونا ترقی یافتہ اور مہذب ہونے کی علامت ہے۔
- وہ مغربی عقلیت کو قبول کرتے ہیں اور مقامی روایات کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
علامہ اقبال:
- اقبال مغربی تہذیب کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس کے ردعمل میں وہ اسلامی تہذیب کو مغرب کے برابر پیش کرتے ہیں۔
- اقبال کا دعویٰ ہے کہ مغربی سائنس مسلمانوں کی ایجاد ہے، اور اگر مسلمان اپنے ماضی کی غلطیوں سے بچتے تو ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے۔
- تاہم، اقبال مادیت اور عقلیت پرستی کو مسترد کرتے ہیں۔
- ان کے نظریات پر مغربی فلسفیوں نتشے اور برگساں کا اثر نمایاں ہے، جو اقبال کی مغربیت کی ایک اور شکل کو ظاہر کرتا ہے۔
ترقی پسند تحریک: مغربیت کی تیسری منزل
- یہ تحریک "تہذیب”، "ترقی” اور "مادیت” کو مکمل طور پر اپناتی ہے، لیکن بظاہر ایسا دکھاتی ہے جیسے یہ اپنی روایات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
- سر سید کے یہاں تہذیب کا مطلب مغربی معاشرت تھا، اقبال کے ہاں اسلامی اخلاق کے ساتھ سائنس کو اپنانا، اور ترقی پسندوں کے نزدیک مادیت کو مان لینا۔
مغربیت کا تناسخ
مغربیت مختلف شکلوں میں چہرے بدل کر ہمارے سامنے آتی رہی ہے۔ اقبال اور ان کے معاصرین کی "نو اسلامیت” اور "نو مشرقیت” بھی اسی مغربیت کا شاخسانہ ہیں، جو مشرقی زبان اور ظاہری لباس میں مغربی روح کو برقرار رکھتی ہے۔ نتیجتاً، مغربیت کی مخالفت بھی مغربیت ہی کی ایک شکل بن جاتی ہے۔
آنندا کمار سوامی کا تجزیہ
آنندا کمار سوامی لکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے دوسری تہذیبوں کو تباہ کر دیا اور اس تباہی کو چھپانے کے لیے ان کے مظاہر کو نمائشی طور پر زندہ رکھا۔ یہی کچھ آج ہماری تہذیب کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہم اپنی روایات کو حقیقی زندگی میں ترک کر چکے ہیں، لیکن انہیں نمائشوں اور تقریبات کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تہذیب سے محبت نہیں بلکہ اس کا مذاق ہے۔