سوال:
میرا تعلق ڈیرہ غازی خان شہر سے ہے، جہاں تمام مکاتب فکر (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ) کی مساجد قبلہ نما میٹر کے مطابق مغرب میں ترچھے رخ پر بنائی گئی ہیں۔ تاہم، ہمارے شہر میں ایک مسجد کے متولی نے اپنی مسجد کا رخ مغرب میں سیدھا کر دیا ہے اور کہتے ہیں کہ اس سے قبلہ رخ میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ ہماری نمازوں کے ذمہ دار ہیں، جبکہ وہ نہ عالم ہیں، نہ مفتی اور نہ قاری۔
براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں:
➊ کیا ان کا یہ دعویٰ درست ہے؟
➋ جو لوگ مساجد کا رخ قبلہ نما میٹر کے مطابق ترچھا کر کے بنا رہے ہیں، وہ غلط کر رہے ہیں؟
➌ کیا یہ لوگ کسی نئے فتنے کی بنیاد رکھ رہے ہیں؟
➍ اگر کسی مسافر کو قبلے کی درست سمت معلوم نہ ہو اور وہ کسی طرف بھی منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی؟ اور اگر بعد میں علم ہو کہ رخ غلط تھا تو کیا نماز درست ہو گی؟
(عبدالوہاب، ڈیرہ غازی خان)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن و حدیث سے قبلہ رخ کا حکم
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ”
"پس اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف کر لو، اور جہاں کہیں بھی تم ہو، اپنا رخ اسی کی طرف کرو۔”
(سورۃ البقرہ: 144)
"پس آپ (نماز میں) اپنا چہرہ مسجد الحرام (بیت اللہ) کی طرف کر لیں اور تم جہاں کہیں بھی ہو (نماز میں) اپنے چہرے اسی طرف پھیر لو۔”
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، فَكَبِّرْ”
"جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو وضو مکمل کرو، پھر قبلہ رخ ہو جاؤ اور تکبیر کہو۔”
(صحیح بخاری: حدیث 6251، صحیح مسلم: حدیث 397، ترقیم دارالسلام: 886)
قبلہ رخ کے حوالے سے اہم مسائل
◈ بیت اللہ کے قریب رہنے والوں پر واجب ہے کہ وہ عین کعبہ کی سمت نماز پڑھیں، جبکہ دور دراز کے لوگوں کے لیے مکہ کی سمت میں نماز پڑھنا ضروری ہے۔
(دیکھئے: صحیح بخاری، حدیث 40)
◈ اگر کسی کو صحیح قبلہ معلوم ہو اور وہ جان بوجھ کر کسی اور طرف منہ کر کے نماز پڑھے، تو یہ جائز نہیں ہے۔
◈ اگر کسی شخص نے پوری کوشش کے باوجود غلط سمت میں نماز پڑھ لی، تو وہ معاف ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ”
"مشرق اور مغرب کے درمیان (کا رخ) قبلہ ہے۔”
(سنن ترمذی: 344، حدیث حسن صحیح)
◈ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"مشرق اور مغرب کے درمیان جو ہے، وہ قبلہ ہے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: 2/362، حدیث 7430، سند صحیح)
آپ کے سوال کا جواب
➊ کیا متولی مسجد کا دعویٰ درست ہے؟
نہیں!
اگر قبلہ نما میٹر اور تمام مسالک کی مساجد قبلہ کو ترچھا رخ دکھا رہی ہیں، اور متولی بغیر کسی علمی بنیاد کے مسجد کا رخ سیدھا کر رہا ہے، تو یہ غلط اور بے بنیاد عمل ہے۔
➋ کیا دیگر مساجد کا قبلہ رخ غلط ہے؟
نہیں!
اگر وہ قبلہ نما میٹر کے مطابق مکہ کی سمت میں ترچھا رخ بنا رہے ہیں، تو یہی درست طریقہ ہے۔
➌ کیا یہ نیا فتنہ ہے؟
✔ ہاں!
یہ عمل لوگوں کو بیت اللہ کے اصل رخ سے ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے، جو کہ ایک بہت بڑا فتنہ اور خطرناک بدعت ہے۔
➍ اگر مسافر کو قبلہ معلوم نہ ہو تو کیا اس کی نماز درست ہوگی؟
✔ جی ہاں!
اگر کسی کو صحیح قبلہ معلوم نہ ہو اور وہ اپنی کوشش کے مطابق کسی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لے، تو نماز ہو جائے گی۔
لیکن اگر بعد میں صحیح قبلہ معلوم ہو جائے تو:
◈ اگر نماز کا وقت گزر چکا ہے، تو نماز درست ہو گی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
◈ اگر نماز کا وقت موجود ہے، تو نماز کو صحیح قبلہ کی طرف دہرانا افضل ہے۔
نتیجہ
مساجد کا قبلہ قبلہ نما میٹر کے مطابق رکھنا درست ہے۔
متولی مسجد کا رخ اپنی مرضی سے بدلنا غلط ہے۔
اگر سمت قبلہ میں اجتہادی غلطی ہو تو معاف ہے۔
جان بوجھ کر غلط سمت میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔
مسافر کو اگر صحیح سمت معلوم نہ ہو تو جو سمت مناسب لگے، اس طرف نماز ہو جائے گی۔
سائل کے سوال کا مختصر جواب:
اگر کسی نے بغیر کسی دلیل کے مسجد کا رخ قبلہ سے ہٹا کر مغرب میں سیدھا کر دیا، تو یہ غلط عمل ہے۔ اس سے بڑا فرق پڑتا ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ اس طرح لوگ بیت المقدس (قبلہ اول) کی طرف نماز پڑھ رہے ہوں۔
متولی کا یہ کہنا کہ "میں نمازوں کا ذمہ دار ہوں” سراسر باطل ہے، کیونکہ کوئی شخص کسی کی نماز کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔
(الحدیث، شمارہ 41، 3 اگست 2007)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب