مسجد کے فنڈ اور زکاۃ کے استعمال کا شرعی حکم

سوال

کیا مسجد کے لیے دی گئی رقم میں سے کسی مجبور فرد کی انفرادی مالی مدد کی جا سکتی ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

مسجد کا فنڈ:

مسجد کے لیے آیا ہوا فنڈ بنیادی طور پر مسجد کی ضروریات اور اس سے متعلقہ امور میں ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔

مخصوص صورت میں اجازت:

اگر مسجد کا فنڈ وافر مقدار میں موجود ہو اور فوری طور پر اس کا کوئی خاص مصرف نہ ہو، تو منتظمین باہمی مشورے سے کسی حقیقی مستحق کی مناسب مالی مدد کر سکتے ہیں۔

زکاۃ کے پیسے کا مسئلہ

زکاۃ مسجد میں خرچ کرنا:

زکاۃ کے پیسوں کو مساجد میں استعمال کرنے سے متعلق اختلاف ہے۔ عمومی طور پر زکاۃ کو ان مقامات پر خرچ کرنے کا کہا گیا ہے جہاں وہ قرآن میں بیان کردہ مصارف کے مطابق ہو، لیکن بعض علماء نے خاص حالات میں گنجائش دی ہے۔

شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ کے مطابق:

  • زکاۃ کا پیسہ مساجد میں لگانے کی گنجائش اسی وقت دی جا سکتی ہے جب بیت المال کی طرح مسجد یا مدرسے کا نظام چلایا جا رہا ہو اور منتظمین دیانت داری سے زکاۃ اور دیگر فنڈز کے استعمال کا فیصلہ کریں۔
  • اگر اس بات کا یقین ہو کہ زکاۃ یا مسجد کا فنڈ اپنی جگہ پر صحیح طور پر خرچ ہو رہا ہے، تو اس میں فتاویٰ کی روشنی میں مخصوص حالات میں مدد کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

خلاصہ:

  • عمومی اصول یہی ہے کہ مسجد کا فنڈ مسجد کی ضروریات کے لیے ہی استعمال کیا جائے۔
  • وافر فنڈز کی موجودگی اور باہمی مشورے سے کسی حقیقی مستحق کی مدد کی جا سکتی ہے۔
  • زکاۃ کے پیسے کا استعمال حالات کے مطابق علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں کیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1