مسجد میں ممنوع کام
پیاز اور لہسن کھا کر مسجد میں آنا
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص لہسن یا پیاز کھائے تو وہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے کیونکہ فرشتوں کو بھی ایذا پہنچتی ہے جس طرح آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: ما جاء فی الثوم: ۵۵۸، مسلم: ۴۶۵)
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو کوئی ان خبیث درختوں (لہسن اور پیاز) کو کھائے تو مسجد کے قریب نہ آئے اور فرمایا اگر تم نے انہیں کھانا ہی ہے تو ان کو پکا کر ان کی بو مارو۔‘‘
لوگوں نے کہا:
’’لہسن حرام ہو گیا؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لوگو میں وہ چیز حرام نہیں کر سکتا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے لیکن لہسن کی بو مجھے بری لگتی ہے۔”
(مسلم، المساجد، باب نھی من اکل ثوما او بصلا ۵۶۵)
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کیا کسی کے تصور میں یہ بات آ سکتی ہے کہ سگریٹ پینے والا پیاز و لہسن کے حکم میں داخل نہیں؟ سب کو معلوم ہے کہ سگریٹ کی بدبو پیاز و لہسن کی بو سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے، ان دونوں کے کھانے میں کوئی ضرر بھی نہیں جب کہ سگریٹ پینے کے بہت سے نقصانات ہیں اور کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
اگر کسی کو بیماری کی وجہ سے لہسن یا پیاز استعمال کرنا پڑے تو وہ استعمال کر سکتا ہے، کیونکہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو سینے کے مرض کی وجہ سے لہسن کھا کر مسجد آنے کی اجازت دی تھی۔
(ابو داود، الاطعمۃ، باب فی اکل الثوم، ۶۲۸۳۔ اسے ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا۔)
مسجد میں تھوکنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کئے گئے۔ میں نے دیکھا کہ نیک اعمال میں راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا بھی ہے اور برے اعمال میں مسجد میں تھوکنا بھی ہے جس پر مٹی نہ ڈالی گئی ہو۔”
(مسلم، المساجد، باب النھی عن البصاق فی المسجد، ۳۵۵)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی دیوار پر بلغم دیکھا، آپ لوگوں کے آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے، آپ نے نماز ہی میں اس کو کھرچ ڈالا۔
نماز کے بعد فرمایا:
"جب کوئی نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، اس کو چاہیے کہ نماز میں اپنے سامنے بلغم نہ ڈالے۔”
(بخاری: الأذان، باب: ہل یلتفت لا ینزل بہ: ۳۵۷، مسلم: ۷۴۵)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف مسجد میں بلغم دیکھا، آپ نے اپنے ہاتھ سے کھرچ ڈالا اور چہرہ مبارک پر ناراضی کے آثار ظاہر ہوئے، گویا آپ کو یہ عمل سخت ناگوار گزرا۔
پھر فرمایا:
’’نماز میں انسان اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اور اس کا رب اس کے اور قبلہ کے بیچ میں ہوتا ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوکے۔‘‘
پھر آپ نے اپنی چادر کا کونا لیا، اس میں تھوکا اور کپڑے کو مل دیا اور فرمایا کہ ایسا کرے۔
(بخاری، الصلوۃ، باب حک الیزاق بالید من المسجد: ۵۰۴، مسلم: ۱۵۵)
اس وقت چونکہ مسجدیں کچی ہوتی تھیں، اس لیے آج کل اگر تھوک آ جائے تو چادر کے پلو میں تھوک کر صاف کر لینا چاہیے یا پانی و کپڑے سے صفائی کی جائے۔ (ع، ر)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اس پر مٹی ڈال کر دبا دینا ہے۔‘‘
(بخاری، الصلٰوۃ باب کفارۃ البزاق فی المسجد، ۵۱۴، مسلم ۲۵۵)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے سامنے نہ تھوکو کیونکہ تم نماز میں اللہ سے سرگوشی کر رہے ہوتے ہو، اور نہ اپنے دائیں طرف تھوکو کیونکہ دائیں طرف فرشتہ ہوتا ہے (جو نیکیاں لکھتا ہے)، لہٰذا اپنے بائیں طرف یا اپنے قدم کے نیچے تھوک کر اسے دفن کرو۔”
(صحیح بخاری:۶۱۴، مسلم:۸۴۵)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن قبلہ رخ بلغم تھوکنے والا آئے گا تو بلغم اس کے چہرے پر لگا ہوا ہو گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۳۲۲)
مسجد میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم وضو کر کے مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلو تو ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں نہ ڈالو، بے شک اس وقت تم نماز ہی میں ہوتے ہو۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، ماجاء فی الھدی فی المشی الی الصلاۃ، ۲۶۵۔ اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا)
یعنی انسان کو مسلسل نماز کا ثواب مل رہا ہوتا ہے۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسجد میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں نہ ڈالو، تم نماز ہی کی حالت میں ہو جب تک نماز کا انتظار کر رہے ہو۔‘‘
(مسند احمد (۴/۴۴۲، ۰۱۳۸۱، اس کی سند جید ہے، بلوغ الامانی)
یہ ممانعت صرف نماز شروع ہونے سے پہلے کے لیے ہے، کیونکہ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں انگلیوں کو آپس میں جوڑنے کا عمل کیا ہے۔
(بخاری الصلاۃ باب تشبیک الاصابع فی المسجد: ۲۸۴)
مسجد کو گزر گاہ بنانا
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مساجد کو گزر گاہ نہ بناؤ، صرف ذکر اور نماز کے لیے خاص رکھو۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۱۰۰۱)
مسجد میں آواز بلند کرنا
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طائف کے دو آدمیوں سے فرمایا:
’’اگر تم مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو؟‘‘
(بخاری، الصلٰوۃ، باب رفع الصوت فی المساجد: ۰۷۴)
مسجد میں خرید و فروخت
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم کسی شخص کو مسجد میں کچھ بیچتا یا خریدتا دیکھو تو کہو:
(لاَ اَرْبَحَ اللّٰہُ تِجَارَتَکَ)
’’اللہ تیری سوداگری میں نفع نہ دے۔‘‘
(ترمذی، البیوع، باب النھی عن البیع فی المسجد، ۱۲۳۱۔ اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا)
اور جب تم کسی کو مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے دیکھو تو کہو:
(لاَ رَدَّہَا اللّٰہُ عَلَیْکَ)
’’اللہ تجھے وہ چیز نہ لوٹائے‘‘
کیونکہ:
"پس بے شک مسجدیں اس مقصد کے لیے تو نہیں بنائی گئیں۔”
(مسلم: المساجد، باب: النہی عن نشد الضالۃ فی المسجد: ۸۶۵)