مسافر اور اس کی مثل دیگر افراد کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے لیکن اگر انہیں جان کی ہلاکت یا قتال میں کمزوری ہو جانے کا اندیشہ ہو تو افطار کرنا ضروری ہے
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے دوران سفر روزے کے متعلق فرمايا:
وإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
”اگر تم چاہو تو (سفر میں ) روزہ رکھو اور اگر چاہو تو چھوڑ دو ۔“
[بخارى: 1943 ، كتاب الصوم: باب الصوم فى السفر والإفطار ، موطا: 295/1 ، مسلم: 1121 ، أبو داود: 2402 ، ترمذي: 711 ، نسائي: 187/4 ، ابن ماجة: 1662]
➋ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ماہ رمضان کے ایک سخت گرم دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے اور اس سفر میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ روزے دار تھے۔
[بخارى: 1954 ، كتاب الصوم: باب مسلم: 1122 ، أبو داود: 2409 ، ابن ماجة: 1663 ، أحمد: 194/5]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے تھے:
فلــم يـعــب الـصـالـم علـى المفطر ولا المفطر على الصائم
”نہ روزہ رکھنے والا روزہ چھوڑنے والے پر عیب لگاتا اور نہ ہی روزہ چھوڑنے والا روزہ رکھنے والے پر ۔“
[بخارى: 1947 ، كتاب الصوم: باب لم يعب أصحاب النبى بعضهم بعضا فى الصوم والإفطار ، مسلم: 1118 ، مؤطا: 23]
➍ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هى رخصة مـن اللــه ، فمن أخذ بها فحسن ومن أحب أن يصوم فلا جناح عليه
”یہ (یعنی دوران سفر روزہ چھوڑنے کی اجازت ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے۔ جو اسے اختیار کر لے تو بہتر ہے اور جو شخص روزہ رکھنا پسند کرے تو اس پر بھی کوئی حرج نہیں ۔“
[مسلم: 1121 ، كتاب الصيام: باب التخيير فى الصوم والفطر فى السفر ، موطا: 295/1 ، طيالسي: 189/1 ، أحمد: 494/3 ، حاكم: 433/1 ، بيهقي: 187/4 ، أبو داود: 2402]
➎ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے روزے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ تک سفر کیا۔ (راوی کہتا ہے کہ ) ہم نے ایک جگہ پر پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ تم دشمن کے قریب ہو لٰہذا روزہ چھوڑ دیتا ہی تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ “ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات رخصت تھی یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے افطار کر لیا۔ پھر ہم نے ایک دوسری جگہ پر پڑاؤ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک تم صبح کو اپنے دشمن پر حملہ کرو گے اور تمہارے لیے روزہ چھوڑ دینا ہی زیادہ بہتر ہے لٰہذا تم روزہ چھوڑ دو ۔“ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات عزیمت (یعنی لازمی قابل عمل) تھی۔ پھر یقینا یہ بات میرے مشاہدے کی ہے کہ اس سفر کے بعد بھی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزہ رکھا کرتے تھے ۔
[مسلم: 1120 ، كتاب الصيام: باب أحر المفطر فى السفر إذا تولى العمل ، أحمد: 35/3 ، أبو داود: 2406 ، ابن خزيمة: 2023]
معلوم ہوا کہ دوران سفر روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں طرح درست ہے۔ علاوہ ازیں جس روایت میں مذکور ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے والوں کے متعلق نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
أولئك العصاة ، أولئك العصاة
”یہی لوگ نا فرمان ہیں یہی لوگ نا فرمان ہیں ۔“
[مسلم: 114 ، كتاب الصيام: باب جواز الصوم والفطر فى شهر رمضان ، ترمذي: 710 ، نسائي: 177/4 ، شرح معاني الآثار: 65/2 ، بيهقى: 231/4 ، ابن خزيمة: 2019]
جمہور اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاص اس دن روزہ کھولنے کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے کہا تھا ۔
[سبل السلام: 886/2]
عبد الرحمن مبارکپوریؒ فرماتے ہیں کہ اس (یعنی نا فرمان) سے مراد ایسا شخص ہے جس پر روزہ گراں گزرے (پھر بھی وہ سفر میں روزہ رکھے ) ۔
[تحفة الأحوذي: 453/3]
مزید برآں ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہیں کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بے شک لوگوں کو روزے نے مشقت میں ڈال
دیا ہے۔ (اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ افطار کر لیا اور افطار نہ کرنے والوں کو نا فرمان کہا) ۔“
[كما قال الحافظ فى بلوغ المرام: 546]
اور جس روایت میں ہے کہ :
ليس من البر الصوم فى السفر
”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔“
[بخارى: 1946 ، كتاب الصوم: باب قول النبى لمن ظلل عليه ، مسلم: 1115 ، أبو داود: 2407 ، نسائي: 175/4]
یہ ایسے شخص کے متعلق ہے جس پر سفر میں روزہ رکھنا مشکل اور پر مشقت ہو اور وہ پھر بھی روزہ رکھے جیسا کہ اسی حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔
نیز جس روایت میں یہ مذکور ہے:
صائم رمضان فى السفر كا لمفطر فى الحضر
”سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حضر (یعنی حالتِ اقامت ) میں روزہ چھوڑنے والے کی طرح ہے۔“ وہ منکر اور ضعیف ہے۔
[الضعيفة: 498 ، ضعيف ابن ماجة: 498 ، كتاب الصيام: باب ماجاء فى الإفطار فى السفر ، ابن ماجة: 1666]
ثابت ہوا کہ دوران سفر روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں طرح جائز و درست ہے۔
(جمہور) اسی کے قائل ہیں ۔
[الروضة الندية: 549/1 ، نيل الأوطار: 200/3]
البتہ امام داود ظاہریؒ وغیرہ کے نزدیک سفر میں روزہ چھوڑنا واجب ہے اور روزہ رکھنے والے کا روزہ نہیں ہوتا۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
عليكم برخصة الله التى رخص لكم فاقبلوها
”اللہ تعالٰی کی اس رخصت کو لازما اختیار کرو اور اسے قبول کرو جس کی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اجازت دی ہے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 2132 ، كتاب الصيام: باب العلة التى من أجلها قيل ذلك ، إرواء الغليل: 53/4 ، نسائي: 2260]
یاد رہے کہ یہ حکم ایسے شخص کے لیے ہے جس پر دوران سفر روزہ رکھنا مشکل ہو جیسا کہ اسی روایت میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ایسے شخص کو دیا تھا جس پر سفر میں روزے (کی مشقت ) کی وجہ سے ایک سایہ دار درخت کے نیچے پانی کے چھینٹے مارے جارہے تھے۔
علماء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے یا چھوڑنا:
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) سفر میں جب مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے اور جب مشقت کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑنا افضل ہے۔
(احمدؒ) صرف روزہ چھوڑنا ہی ہر حال میں افضل ہے ۔
[سبل السلام: 886/2 ، بداية المجتهد: 165/2 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 631/2 ، المجموع: 260/6 ، الروض النضير: 134/3]
(شوکانیؒ) جس پر روزہ رکھنا مشکل ہو ، یا جسے (سفر میں ) روزہ نقصان دیتا ہو ، یا جو رخصت قبول کرنے سے اعراض کرتا ہو، یا جسے دوران سفر روزہ رکھنے سے فخر و ریا کاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص پر روزہ چھوڑ دینا افضل ہے اور جو ان اشیاء سے مستغنی ہو اس کے حق میں روزہ رکھنا افضل ہے۔
[نيل الأوطار: 201/3]
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں برابر ہیں ان میں کوئی بھی افضل نہیں اور بعض کہتے ہیں کہ دونوں میں جو آسان ہوا سے اختیار کر لینا چاہیے۔
[سبل السلام: 886/2 ، تحفة الأحوذي: 453/3]
(راجح) امام شوکانیؒ وغیرہ کا موقف احادیث کے زیادہ قریب ہے۔
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) جمہور کا موقف راجح ہے ۔
[تحفة الأحوذى: 453/3]