مسئلہ فاتحہ خلف الامام پر فریق مخالف کے دلائل کا تجزیہ
یہ اقتباس شیخ بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب فاتحہ خلف الامام سے ماخوذ ہے۔

مخالفین کے دلائل اور ان کی حقیقت

سب سے پہلے ان کی مشہور دلیل سورہ اعراف کی مندرجہ ذیل آیت ہے:
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾
جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ مگر اس آیت کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔ اپنی زندگی میں اپنے قول و فعل سے اس کی تفسیر کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے یہ حکم دیا ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھی جائے ورنہ نماز نہیں ہو گی۔ اگر قرآن کریم میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے روکا گیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اس کے پڑھنے کا حکم نہ دیتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی قرآن کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی قرآن پر صحیح عمل کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ اور یہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے، اس لئے اس طرح آیت اور صحیح احادیث کا آپس میں ٹکرانا عقیدے کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ بلکہ مسلمانوں کو تمام مسائل قرآن اور احادیث کی روشنی میں سمجھنے چاہئیں۔ اسی وجہ سے امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ کچھ لوگ تمہیں قرآن سے دلیل پیش کر کے شبہات پیدا کر کے جھگڑیں گے، پس تم ان کو حدیث سے پکڑنا مواخذہ کرنا۔ «فان اصحاب السنن اعلم بكتاب الله»
اس لئے کہ حدیث والے (اہل حدیث) ہی قرآن کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
(سنن الدارمی صفحہ 74 جلد 1)
اس کے علاوہ مضمون خود بتا رہا ہے کہ اس آیت کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں سیاق سے اس طرح ہے:
﴿وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ‎. وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.﴾ الاعراف
ان آیات کا ترجمہ علامہ تاج محمد امروٹی نے اس طرح کیا ہے:
”اور (اے پیغمبر) جب تو ان کے پاس کوئی آیت لاتا ہے (تو) کہتے ہیں کہ (اپنی طرف سے) کیوں نہیں بناتا؟ کہہ دے کہ جو کچھ میری طرف اپنے رب کی طرف سے وحی ہوتی ہے اس کے علاوہ (کسی اور کی) تابعداری نہیں کرتا۔ یہ (قرآن) ہمارے رب کی طرف سے روشنی اور ہدایت اور رحمت ہے اس قوم کے لئے جو مانتی ہے۔ اور جب قرآن پڑھا جائے (تو) اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اسی طرح مولوی محمد عثمان نورنگ زادہ کی تفسیر تنویر الایمان میں بھی ہے۔
ناظرین!
اب اس ترجمہ پر غور کریں کہ یہ کفار کا مطالبہ ہے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنے کا حکم دیتا ہے کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ اس حکم کا پابند ہوں جو وحی کے ذریعے میری طرف آتا ہے۔ اور یہ قرآن میرے رب کی طرف سے آیا ہے جس میں تمہارے لئے روشنی اور رہنمائی ہے، خاص کر مؤمنوں اور ماننے والوں کے لئے رحمت ہے۔ اس لئے تم اس کو خاموشی سے سنو تاکہ تمہارے لئے بھی رحمت بن جائے۔ یعنی وہ وعظ اور دوران خطبہ شور مچاتے تھے اور ان کے بڑوں کی اپنے زیردستوں کو تعلیم تھی جیسا کہ قرآن کریم میں (دوسری جگہ) فرمایا گیا ہے:
﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ﴾
(سورۃ حم السجدہ: رکوع 4 پارہ 24)
اور کفار نے کہا کہ اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھنے کے دوران شور کرو تاکہ تم غالب ہو جاؤ۔
(ترجمہ امروٹی صفحہ 573)
یعنی دوران خطبہ کفار کو شور کرنے سے روکا گیا۔ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر جلد 15 صفحہ 104-105 میں اس بارے میں تفصیلی تقریر کی ہے اور فرماتے ہیں کہ اس طرح قرآن کریم کے مضمون کی اچھی ترتیب اس کو فائدہ مند بنانے والی ہے اور اس کو امام کے پیچھے قراءت کرنے سے روکنے کی دلیل بنانے سے مضمون کا سلسلہ وار ہونا اور ترتیب نہیں رہے گی۔
اسی طرح اس مسئلے سے متعلق (وہ لوگ) کئی روایات پیش کرتے ہیں جو کہ یا تو صحیح نہیں ہیں یا ان سے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔
علامہ عبدالحی لکھنوی موطا امام محمد کے حاشیہ التعلیق الممجد صفحہ 1 میں فرماتے ہیں:
«لم يرد فى حديث مرفوع صحيح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الامام و كل ما ذكره مرفوعا فيه اما لا اصل له و اما لا يصح»
یعنی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ سے کسی بھی صحیح اور مرفوع حدیث میں ممانعت وارد نہیں ہے اور جو مرفوع روایات ذکر کی جاتی ہیں، ان میں سے کچھ تو بے اصل اور بناوٹی ہیں اور کچھ غیر صحیح ہیں۔
امام عبداللہ بن مبارک جو تبع تابعین میں مشہور اور بڑے مقام والے ہیں، فرماتے ہیں:
«انا اقرأ خلف الامام و الناس يقرؤون الا قوم من الكوفيين»
(الترمذی مع تحفۃ الاحوذی صفحہ 452 جلد 1)
یعنی میں امام کے پیچھے قراءت کرتا ہوں اور کوفے کی ایک قوم کے علاوہ سب لوگ قراءت کرتے ہیں۔

محقق علمائے حنفیہ کی رائے

ناظرین!
کتنے محقق علمائے حنفیہ بھی دلائل دیکھ کر امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل ہوئے ہیں، مثلاً:
1. حنفی مذہب کے مشہور عالم اور مجتہد فی المذہب شیخ عبدالرحیم جو کہ شیخ التسلیم کے لقب سے معروف ہیں، وہ بھی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ خود بھی پڑھتے تھے اور کہا کرتے تھے:
«لو كان فى فمي جمره يوم القيامه احب الي من ان يقال لا صلاة لك»
(امام الکلام لکھنوی صفحہ 38)
یعنی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کی وجہ سے منہ میں انگارے ڈالے جانے کی وعید سنائی جاتی ہے۔ اگر قیامت کے دن میرے منہ میں انگارے ڈالے جائیں، یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ مجھے کہا جائے کہ تیری نمازیں قبول ہی نہیں ہوئیں۔ (دراصل یہ اس روایت کی طرف اشارہ ہے جو غالی حنفیوں نے گھڑی ہے کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ پڑھے گا، قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کے انگارے ڈالے جائیں گے۔ یوگوی)
2. شاہ ولی اللہ انفاس العارفین میں اپنے والد شاہ عبدالرحیم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ (غیث الغمام صفحہ 215)
3. شیخ نظام الدین محمد بن احمد بدایونی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کو جائز سمجھتے تھے اور خود بھی آہستہ آہستہ پڑھتے تھے۔ ان کو کچھ ساتھیوں نے بتایا کہ ایک روایت میں ہے کہ امام کے پیچھے پڑھنے والے کے منہ میں انگارے ڈالے جائیں گے تو انہوں نے کہا:
«و قد صح عن النبى صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب فالحديث الأول مشعر بالوعيد و الثاني ببطلان الصلاة لمن لم يقرأ بالفاتحه و اني احب ان اتحمل الوعيد و لا استطيع ان تبطل صلاتي الا انه قد صح فى الأصول ان الأخذ بالأحوط و الخروج من الخلاف اولي»
یعنی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ جس نے بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز نہیں ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ سورہ فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز باطل ہے۔ اس لئے مجھے یہ تو برداشت ہے کہ میرے منہ میں انگارے ڈالے جائیں، مگر یہ بات برداشت نہیں کہ میری نمازیں ہی باطل قرار دی جائیں۔ نیز اصول فقہ کا مسئلہ بھی ہے کہ احتیاط کرنا اور اختلاف سے نکلنا بہتر ہوتا ہے۔ یعنی احتیاط اسی میں ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھ لینی چاہئے۔ (نزہۃ الخواطر صفحہ 123 جلد 2)
4. علامہ عبدالصمد پشاوری حنفی نے تو اس بارے میں مستقل رسالہ بنام ”اعلام الاعلام بقراءة الفاتحه خلف الامام“ لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ ضرور پڑھنی چاہئے اور اس کی ممانعت کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے قراءت فاتحہ خلف الامام کا قائل ہونا ضروری ہے کیونکہ میں نے اس بارے میں بہت ساری کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور فاتحہ خلف الامام سے ممانعت کے بارے میں حدیث تو کیا، صحابی کا قول بھی مجھے نہیں ملا۔ اس کے برعکس فاتحہ خلف الامام کے بارے میں تقریباً تین احادیث وارد ہیں، نیز صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین میں سے اکثر کا یہی عمل تھا۔
5. علامہ احمد فیاض امیٹھوی بھی تمام نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے تھے اور مخالفین پر رد کرتے تھے۔ (نزہۃ الخواطر صفحہ 31 جلد 4)
6. مرزا مظہر جان جانان فاتحہ خلف الامام کو قوی جانتے تھے۔ (امجد العلوم مصنف نواب صدیق حسن خان صفحہ 90)
7. علامہ عبدالباقی نقشبندی دہلوی شروع ہی سے فاتحہ خلف الامام پڑھتے تھے اس لئے کہ اس بارے میں بہت ساری احادیث اور قوی دلائل موجود ہیں۔ (نزہۃ الخواطر صفحہ 199 جلد 5)
8. التفسیر الاحمدیہ صفحہ 227 میں ہے:
«فان رأيت الطائفه الصوفيه و المشائخ الحنفيه تراهم يستحسنون قراءة الفاتحه للمقتدي كما استحسنه محمد ايضا احتياطا فيما روي عنه»
یعنی بہت سارے صوفی اور حنفی مشائخ آپ کو نظر آئیں گے جو قراءت خلف الامام کو مستحسن جانتے ہیں جیسے امام محمد سے مروی ہے کہ اس نے بھی فاتحہ خلف الامام کو احتیاطی طور پر مستحسن سمجھا ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے حوالہ جات ہیں، بلکہ خود امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد محمد سے بھی ایک روایت منقول ہے۔ چنانچہ علامہ لکھنوی حنفی امام الکلام صفحہ 216 میں امام شعرانی سے نقل کرتے ہیں:
«لأبي حنيفه و محمد قولان احدهما عدم وجوبها بل لا تسن و هذا قولهما القديم و ادخله محمد فى تصانيفه القديمه و انتشرت النسخ فى الأطراف وثانيهما على سبيل الاحتياط و عدم كراهتها عند المخالفه للحديث المرفوع لا تفعلوا الا بأم القرآن و فى رويه لا تقرؤوا بشيء اذا جهرت الا بأم القرآن و قال عطاء كانوا يرون على المأموم القراءه فيما يجهر فيه الامام و فيما يسر فرجعا من قولهما الأول الي الثاني احتياطا»
یعنی امام ابو حنیفہ اور امام محمد سے فاتحہ خلف الامام کے بارے میں دو قول ہیں:
1. فاتحہ خلف الامام نہ واجب ہے نہ سنت، یہ ان کا پرانا اور پہلا قول ہے جو کہ امام محمد نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جن کے نسخے چاروں اطراف پھیل گئے۔
2. دوسرا قول یہ ہے کہ احتیاطی طور پر سری نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا مستحسن ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ اس لئے کہ حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مقتدیوں کو) فرمایا: ”ؤسورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو۔ دوسری روایت میں ہے: جس وقت جہری قراءت کروں تو سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا کرو (جیسا کہ دونوں حدیثیں اوپر گزریں)۔ اور عطاء بن ابی رباح نے فرمایا کہ جہری اور سری دونوں نماز میں سورہ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنے کے (صحابہ و تابعین) قائل تھے۔ یہ ان کا آخری قول ہے جس کی طرف دونوں اماموں نے پہلا قول چھوڑ کر رجوع کیا ہے۔
الغرض:
ہر مسلمان کو اپنی نماز کا خیال رکھنا چاہئے اور اتنی احادیث دیکھ لینے کے بعد کسی قسم کے شک میں نہیں رہنا چاہئے، بلکہ سورہ فاتحہ ہر نماز اور ہر حالت میں پڑھنی چاہئے اور اپنی نمازیں برباد نہیں کرنا چاہیئں۔
مزید تفصیل کے لئے ہماری تفسیر سورہ فاتحہ اور كتاب تمييز الطيب من الخبيث فى جواب رساله تحفة الحديث کا مطالعہ کرنا چاہئے اور مزید تسلی حاصل کر لینی چاہئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سب مسلمانوں کو ایسی بابرکت سورت سے محروم ہونے سے پناہ میں رکھے، بلکہ اس کو پڑھنے اور اس کے ثواب و اجر میں حصہ دار بنائے۔
و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد المرسلين و على اهل طاعته اجمعين۔ آمين
وانا العبد
ابو محمد بديع الدين شاه الراشدي
غفر له ولوالديه

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1