سوال: مرد کے عورت کا بچہ جنوانے کا کیا حکم ہے؟
جواب: عورت کو ڈلیوری کے لیے ہسپتال لے جانے کا قول مطلق طور پر بالکل جائز نہیں ہے ، اس کی تحدید ضروری ہے ۔
جب لیڈی ڈاکٹر اپنے علم کے مطابق یہ رائے قائم کرے کہ بلاشبہ اس کے حاملہ عورت کا بچہ نارمل اور طبعی طریقے سے پیدانہیں ہوگا بلکہ بچے کی ولادت کے لیے اس عورت کا آپریشن کرنا پڑے گا تو اس حالت میں عورت کو صرف نارمل طریقے سے ولادت کو ممکن بنانے کے لیے ہسپتال میں منتقل کیا جائے گا .
جب عورت کو مجبورا ہسپتال جانا ہی پڑے تو ضروری ہے کہ مرد ڈاکٹر اس کا بچہ نہ جنواے ، لیکن اگر لیڈی ڈاکٹر میسر نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ، بلکہ جب عورت خطرناک صورت حال میں مبتلا ہو تو لیڈی ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں مرد ڈاکٹر کا ڈلیوری کرنا واجب ہوجا تا ہے ۔ اور یہ جواب اصول فقہ کے قواعد میں سے دو قاعدوں سے اخذ کیا جا تا ہے ، اور وہ دو قاعدے مندرجہ ذیل ہیں:
➊ پہلا قاعدہ: ”الضرورات تبيح المحظورات“ ضرورتیں ممنوعات کو مباح کر دیتی ہیں ۔
➋ دوسرا قاعدہ: الضرورة تقدر بقدرها ضرورت اپنی حد تک ہی رہے گی ۔
جب تک عورت کے لیے گھر میں بچہ پیدا کرنا ممکن ہو اس کو ہسپتال جانا جائز نہیں ہے ۔ پس اگر وہ مجبور ہو ، مثلاًً دایہ میسر نہ آئے جو اس کا بچہ جنوائے ، تو لیڈی ڈاکٹر اس کا بچہ جنوائے گی اور اگر لیڈی ڈاکٹر میسر نہ ہو تو مرد ڈاکٹر اس کا بچہ جنوائے گا ۔ لہٰذا اصل یہ ہے کہ بلاشبہ عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ سوائے خاص مجبوری کے اپنے گھر سے نکلے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (33-الأحزاب: 33)
اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو ۔“
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قد أذن الله لكن أن تخرجن لحاجتكن [صحيح البخاري ، رقم الحديث 146 صحيح مسلم ، رقم الحديث 2170]
” (اے عورتو! ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہارے کسی ضروری کام کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے ۔ “ (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )
——————